ہر اندھیری رات میں آنکھوں کا تارا شکر ہے

ہر اندھیری رات میں آنکھوں کا تارا شکر ہے ہر مصیبت پر دل غمگیں پکارا شکر ہے ہے زمیں سےآسماں تک خواہشوں کی سلطنت دوسری جانب چلو جس کا کنارہ شکر ہے ہر قدم پر اک نئی قوت نئی تعبیر دے ہم گناہگاروں فقیروں کا سہارا شکر ہے شکر ہے سر پر اٹھانا ہی نہیں مزید پڑھیں

چلو اک خواب لکھیں : اظہر نیاز

کتاب زندگی کا باب لکھیں چلو اک خواب لکھیں جسے دیکھا بہت چاہا بہت ہے اسے کمیاب لکھیں چلو اک خواب لکھیں جو اک پل میں بنا دے صبح کو شام اسے مہتاب لکھیں چلو اک خواب لکھیں پیاسے ہونٹ ہیں دریا کنارے انہیں سیراب لکھیں چلو اک خواب لکھیں

نماز فجر سے پہلے : اظہر نیاز

ابھی تو چاند آدھا تھا کسی بوڑھے کے ابرو سا ابھی تو رات تھی آدھی دھنک کیسے چمک اٹھی یہ کیسے مور ناچ اٹھا مجھے کیا ہو گیا دھوکہ نہیں وہ میں نہیں تو تھا نہیں وہ تو نہیں میں تھا بہت ہی پاس تھا میرے نماز فجر سے پہلے

تو کر سکتا ہے -اظہر نیاز

تو سب چیزوں پہ قادر ہے تو اول ہے تو آخر ہے تو مالک ہے تو خالق ہے تو غائب ہے تو حاضر ہے تو کر سکتا ہے کر دے ناں میری خالی جھولی بھر دے ناں مرے بھٹکے ہوئے سوالوں کو  تو بس اپنا ہی در دے ناں تو کر سکتا ہے کر دے مزید پڑھیں

ایک بھی بات نہیں ہے باقی اس دنیا میں ہنسنے کی – اظہر نیاز

ایک بھی بات نہیں ہے باقی اس دنیا میں ہنسنے کی یا پھر مجھ کو عادت سی ہے تیری یاد میں رونے کی تیرے میرے بیچ کھڑی ہے موت رقیب رو سیاہ اب میں سمجھا کیوں خواہش بھی ختم ہوئی ہے جینے کی یہ دنیا ہے کتوں بلوں کی یا پھر خنزیروں کی تم بھی مزید پڑھیں

غزل اظہر نیاز

سوال پوچھ رہی ہے یہ عمرِ لا حاصل کہ بس یہی ہے تری جد وجہد کا حاصل نہ کوئی دولتِ دنیا نہ زادِ راہِ اخیر نہ کوئی خواب کمایا تو کیا کیا حاصل جلایا خون بہت ہم نے روشنی کے لئے ہوئی سحر تو دیا ہاتھ میں بجھا،حاصل کمال اپنا نہیں دوستوں کا لگتا ہے مزید پڑھیں