غزل اظہر نیاز

سوال پوچھ رہی ہے یہ عمرِ لا حاصل
کہ بس یہی ہے تری جد وجہد کا حاصل
نہ کوئی دولتِ دنیا نہ زادِ راہِ اخیر
نہ کوئی خواب کمایا تو کیا کیا حاصل
جلایا خون بہت ہم نے روشنی کے لئے
ہوئی سحر تو دیا ہاتھ میں بجھا،حاصل
کمال اپنا نہیں دوستوں کا لگتا ہے
کہ تیری یاد کا غم بے بہا رہا حاصل
بہت بھروسا تھا مجھ کو بھی اس کی آنکھوں پر
جو وقت آیا تو اک خوا ب ہی رہا حاصل
وہ التباس تھا اور میں سمجھ رہا تھا کہ تو
ایک اور دھوکے سے بڑھ کر ہوا سوا حاصل
عجیب ضرب و جمع اور منفی و اثبات
میں جس حساب میں ہوں واں نہیں خدا حاصل
ہمارے واسطے اپنوں کی بد دعائیں ہیں
ہمارے لفظ بھی ویسے ہی ہوں تو کیا حاصل
اظہر ںیاز