غزل اظہر نیاز

سوال پوچھ رہی ہے یہ عمرِ لا حاصل کہ بس یہی ہے تری جد وجہد کا حاصل نہ کوئی دولتِ دنیا نہ زادِ راہِ اخیر نہ کوئی خواب کمایا تو کیا کیا حاصل جلایا خون بہت ہم نے روشنی کے لئے ہوئی سحر تو دیا ہاتھ میں بجھا،حاصل کمال اپنا نہیں دوستوں کا لگتا ہے مزید پڑھیں

راستے بند ہیں اظہر نیاز

راستے بند ہیںروشنی تو نہیںبند بازار ہیں زندگی تو نہںمسجدیں بند ہیں بندگی تونہیں روشنی زندگیزندگی بندگیبندگی بے کلیمنتظر ہیں تریصبح امید ہے کوئی چڑیا نہیںکھولو کھڑکی کوئی راستے بند ہیںروشنی تو نہیں

مشکل کی گھڑی میں بھی دعا یاد نہیں ہے

مشکل کی گھڑی میں بھی دعا یاد نہیں ہے ہم ایسے ہیں بد بخت خدا یاد نہیں ہےہم سانس نہ آنے کا گلا کرتے ہیں لیکن کیوں حبس میں اک لفظ ہوا یاد نہیں ہےاچھے نہیں ہوتے یہ گلا یاد ہے سب کوبیمار محبت ہیں دوا یاد نہیں ہے اظہر نیاز

اے خدا

مایوسیوں کی رات کو صبح کمال دے اے مالک رنج والم غم سے نکال دے ہاتھوں کو پھر سلام دے سب کا خیال دے اور اس وبا کو اے خدا دوزخ میں ڈال دے اظہر نیاز

اے مالک کن فیکون

مجھ گناہ گار کی دعا کو سن لے مجھے معاف فرما دے میرے عزیز و اقارب رشتہ داروں کو معاف فرما دے میرے دوست احباب کو معاف فرما دے اور ہمارے گھروں سے اس وبا کو دور فرما دے ہمارے پیارے ملک پاکستان سے اس وبا کو دور فرما دے عالم اسلام سے اس وبا مزید پڑھیں

عشق کا حاصل

وہ جن کے پاؤں کو چھو کر ہوا ہے عرش ،عظیم وہی بشارت عیسٰی دعائے ابراہیم میں امتی ہوں انہیں کا مجھے نہ خوف نہ غم انہیں سے عشق کا حاصل ہے میرا قلبِ سلیم اظہر نیاز