نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شب طرب مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو کہیں تار دامن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے کہ مزید پڑھیں

یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے احمد فراز

یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے پھر اس طرح ہُوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر سب چارہ ساز جانبِ دربار آ گئے اب دل میں حوصلہ نہ سکت مزید پڑھیں

“اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو”احمد فراز

پاک اہل وطن مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی بچھا دیا مزید پڑھیں

نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے احمد فراز

*نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے* *کہ اب تلک نہیں آئے ہیں لوگ جب کے گئے* *کرے گا کون تری بے وفائیوں کا گلہ* *یہی ہے رسم زمانہ تو ہم بھی اب کے گئے* *مگر کسی نے ہمیں ہم سفر نہیں جانا* *یہ اور بات کہ ہم ساتھ ساتھ سب کے مزید پڑھیں

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے احمد فراز

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے یوسفؑ نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آگئے اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے اب کہ مقابلے پہ میرے یار آ گئے آواز دے کے چھپ گئی ہر بار مزید پڑھیں

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاعر: احمد فراز

مرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تیری نہ تیری مدح ہے ممکن مرے خیالوں سے تُو روشنی کا پیمبر ہے اور مری تاریخ بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے ترا پیام محبت تھا اور میرے یہاں دل مزید پڑھیں

” مجھ سے پہلے ” احمد فراز

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﭘﮧ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﺠﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ بیگانۂ ﭘﯿﻤﺎﻥِ ﻭﻓﺎ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﺭﻋﻨﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ مزید پڑھیں

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی تمام خلق مری ہم نوا نکلتی ہے وصالِ ہجر کی حسرت میں جُوئے کم مایہ کبھی کبھی کسی صحرا میں جا نکلتی ہے میں کیا کروں مرے مزید پڑھیں

یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری احمد فراز

میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری اسے خبر ھی نہ تھی خاک کیمیا تھی مری میں چپ ھوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ھوئی پھر اس کے بعد تو آواز جابجا تھی مری جو طعنہ زن تھا مری پوشش دریدہ پر اسی کے دوش رکھی ھوئی قبا تھی مری میں مزید پڑھیں