[ad_1]
منکی پاکس ایک متعددی بیماری ہے جو افریقا کے علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور گاہے بگاہے اس کے کیسز دنیا کے دیگر ممالک میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے الرٹ جا ری کیا ہے اور تمام ممالک کو عالمی صحت قوانین کے تحت اقدامات اٹھانے کا پابند کیا ہے۔ پاکستان میں بھی رواں برس اس کے دو کیسز سامنے آئے ہیں۔ یہ دونوں مریض بیرون ممالک سے پاکستان آئے جبکہ مقامی سطح پر منکی پاکس کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا۔ منکی پاکس کی علامات کیا ہیں، اس سے بچاؤ، روک تھام اور تدارک کیسے ممکن ہے، اس حوالے سے حکومت کیا کام کر رہی ہے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ایکسپریس فورم میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی نمائندوں اور ماہرین صحت کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(چیئرمین ٹیکنیکل کمیٹی برائے منکی پاکس پنجاب و سابق صوبائی وزیر صحت پنجاب)
منکی پاکس بے ضرر ہے۔ یہ کوئی نئی بیماری نہیں ، پہلے بھی اس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ منکی پاکس کا تعلق چیچک کی فیملی سے ہے،ا س کی ویکسین اور علاج موجود ہے لہٰذا گھبرانے کی ضرورت نہیں، بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا۔منکی پاکس سمیت دیگر بیماریوں سے نمٹنے کیلئے حکومتی وِل موجود ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اس مرض کے حوالے سے اقدامات کی رپورٹ لے رہی ہے۔ ہم نے ’ڈیزیز ارلی وارنگ سسٹم‘ کا افتتاح کر دیا ہے جس میں صحت کے دونوں صوبائی وزیر شامل تھے جبکہ وزیراعلیٰ نے آن لائن شرکت کی۔ انہوں نے ہمیں تمام تر وسائل کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ حکومت کی طرف سے ہمیں ہر ممکن تعاون فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہماری توجہ تربیت، حفاظتی اقدامات، آگاہی اور بچاؤ پر ہے۔ جہاں سے بھی اس وائرس کا پھیلاؤ ہوسکتا ہے، ہمیں وہ راستے روکنے ہیں۔ عوام کو تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، ہم ان کی حفاظت کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ عوام کی آگاہی کیلئے یہ بتانا ضروری ہے کہ منکی پاکس کا ایک بھی کیس مقامی نہیں ہے بلکہ جو دو کیسز سامنے آئے وہ بیرون ملک سے آئے، دونوںمریض ہی صحت یاب ہوچکے ہیں۔
ہمارے ہاں کانگو سے کم لوگ آتے ہیں لیکن سعودی عرب جو ہمارے لیے مقدس سرزمین ہے، وہاں سے لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔سعودی عرب میں دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں لہٰذا وہاں سے ہمارے پاکستانی بھائیوں میں یہ وائرس آیا اور وہ پاکستان آئے مگر اب ان کا علاج ہو چکا ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ ان کے ذریعے یہ مرض یہاں نہیں پھیلا۔ منکی پاکس کی موجودہ قسم خطرناک ہے لیکن ہمارے ہاں اس کی پرانی قسم والے مریض سامنے آئے ۔ نئی قسم سے کانگو میں بچوں کی شرح اموات 7 فیصد رہی جس کے باعث دنیا الرٹ ہوئی اور عالمی سطح پر تشویش پائی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی اس مرض کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کی ویکسی نیشن کیلئے عالمی اداروں سے بات چیت جاری ہے تاہم مقامی سطح پر اس کی ادویات کی تیاری کیلئے ڈریپ سے منظوری لے لی گئی ہے جلد ٹیکہ و کھانے والی دوامقامی سطح پر تیار کر لی جائے گی۔
مرض کی تشخیص کیلئے ابتدائی طور پر 200 ٹیسٹ کٹس منگوالی گئی ہیں۔ ہم خود کو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ ہم نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور ڈی جی سول ایوی ایشن کو خطوط لکھے ہیں کہ ملک کے داخلی اور خارجی راستوں پر خصوصی اقدامات کریں۔ یہ کوئی پہلی یا آخری وباء نہیں، عالمی پروٹوکولز کے مطابق ہمیں اقدامات کرنے چاہئیں اور الرٹ رہنا چاہیے۔ ہم نے ملک کے تمام ایئرپورٹس پر کوارنٹین سینٹرز بنانے کیلئے وزیر داخلہ سے بھی بات کی ہے۔ ایئرپورٹ پر مریض کی کم از کم 15 دن کی ٹریول ہسٹری لازمی لینی چاہیے،ا گر وہ کانگو سے سفر کرکے کسی اور ملک کے ذریعے پاکستان آیا ہے تو اسے فوری الگ کر دیا جائے ، اس کا معائنہ کرکے مرض کی تشخیص کی جائے۔ ہمیں سرویلنس کو بہتر کرنا ہے،ا س میں ہی بقاء ہے۔ اس وقت ایئرپورٹ عملے کی تربیت بھی کی جا رہی ہے، ہمیں اپنا ہیلتھ کیئر سسٹم مضبوط اور فعال بنانا ہوگاہے۔
ڈاکٹر ید اللہ
(ڈائریکٹر ہیلتھ ’سی ڈی سی‘،محکمہ صحت پنجاب )
کرونا وباء کے بعد سے دنیا بدل چکی ہے، لوگوں کے طرز زندگی، سوچ اور رویوں میں تبدیلی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحت کے عالمی قوانین جو 2006ء میں بنے تھے، اب ان پر دنیا بھر میں عملدرآمد کروایا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت و دیگر عالمی ڈونر ایجنسیوں نے تمام ممالک کو ان قوانین پر سختی سے عمل کرنے پر زور دیا ہے۔دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے لہٰذا اب کوئی بھی چیز کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہ سکتی، سب کو ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنے اپنے ملک میں بہتری لاناہوگی، اسی میں دنیا کی بقاء ہے۔
افریقی ممالک سمیت ترقی پذیر ممالک پر یہ لازمی کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نظام صحت کو بہتر کریں۔ اس کے حوالے سے 4 بڑی گائیڈ لائنز دی گئی ہیں جن میں پہلی بچاؤ ہے۔ بیماریوں سے بچنے اورا ن کے تدارک کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ دوسرا نکتہ تشخیص ہے۔ اس کیلئے ایسا انفراسٹرکچر بنایا جائے کہ مرض کی جلد اور بروقت تشخیص ہوسکے۔ اس میں لیبارٹریاں و دیگر اقدامات شامل ہیں۔ تیسرا نکتہ علاج ہے جس میں ہسپتال، ادویات و دیگر سہولیات شامل ہیں۔ آخری نکتہ سکیورٹی اقدامات کے حوالے سے ہے کہ تمام ممالک اپنے داخلی و خارجی راستوں جن میں ہوائی، سمندری اور زمینی راستے شامل ہیں پر حفاظتی اقدامات یقینی بنائیں جن میں لوگوں کی سکریننگ و دیگر اقدامات شامل ہیں۔ دنیا میں اب ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا رہا۔ 38 بیماریوں کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے الرٹ جاری کر رکھا ہے، تمام ممالک کو عالمی صحت قوانین اور گائیڈ لائنز پر سخی سے عمل کرنا ہوگا۔ عالمی ادارہ صحت نے منکی پاکس کے حوالے سے الرٹ جاری کیا ہے، پاکستان بھی اس حوالے سے اقدامات کرنے کا پابند ہے۔
منکی پاکس کی نئی قسم خطرناک ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے اور اس سے دنیا میں اموات بھی ہوئی ہیں، خاص طور پر بچوں کی افسوسناک اموات سے تشویش پھیلی ہے۔ کرونا وباء کے بعد سے ترقی یافتہ ممالک ڈرے ہوئے ہیں۔ پاکستان پر اس وباء کے دوران اللہ تعالیٰ کا خاص کرم رہا، یہاں وہ تباہی اور نقصان نہیں ہوا جو ترقی یافتہ ممالک میں ہوا۔ افسوس ہے کہ ہم دنیا کے ان آخری دو ممالک میں شامل ہیں جہاں سے آج تک پولیو کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔ ہم پر سفری پابندیاں بھی لگی ہیں، بغیر پولیو سر ٹیفکیٹ کے، پاکستانی بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔
اس وقت عالمی ادارہ صحت نے منکی پاکس کے حوالے سے دنیا میں ’پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آف سیرئس کنسرن‘ لگا رکھی ہے ۔ پاکستان میںو زیر اعظم کے کووارڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ نے فوری طور پر وفاق اور چاروں صوبوں کی ویڈیو لنک میٹنگ کی۔ اس کے بعد سے وفاق اور چاروں صوبے اس مرض سے نمٹنے کیلئے آپس میں رابطے میں ہیں اور اس حوالے سے اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو اختیار منتقل ہوگئے، صحت کا شعبہ بھی صوبوں کے پاس آگیا مگر ایسا لگتا ہے کہ صوبے اس کے لیے تیار نہیں تھے جس کے باعث نقصان ہوا۔ مئی میں عالمی اداروں اور دنیا کے بہترین ماہرین کے 18 رکنی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں کے نظام صحت کا جائزہ لیا۔
بلوچستان میں سکیورٹی مسائل کے باعث ان کا دورہ نہ ہوسکا۔ ملک کے دیگرحصوں کے نظام صحت کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے تعریف کی کہ پنجاب کا نظام صحت بہترین ہے اور سب سے آگے ہے۔ہم اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ عالمی اہداف کی بات کریں تو پاکستان پہلے میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اب اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ماں بچے کی صحت، شرح اموات، ہیپاٹائٹس سمیت مختلف بیماریوں و صحت کے مسائل میں ہماری عالمی ریٹنگ خراب ہے۔ اس کی بڑی وجہ صوبوں کا آپس میں روابط کا نہ ہونا اور مل کر کام نہ کرنا ہے۔ اگر ایک صوبہ زیادہ کام کر بھی لے تو عالمی رینکنگ ملک کی مجموعی صورتحال اور اعداد و شمار پر مبنی ہوتی ہے جس میں ہمیں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔
ملک کی رینکنگ بہتر کرنے کیلئے تمام صوبوں کو ملکر بہترین کام کرنا ہوگا ۔ملک میں صحت کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان بنا لیا گیا ہے، کرونا وباء کے دوران بنائی گئی ’این سی او سی‘ کو بھی دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے تاکہ منکی پاکس کے حوالے سے معاملات کو دیکھا جاسکے۔ پنجاب میںمنکی پاکس سے بچاؤ اور روک تھام کیلئے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ایئرپورٹس پر محکمہ صحت کا سٹاف تعینات ہوچکا ہے، واہگہ بارڈر لاہور پر بھی ٹیم تعینات کر دی گئی ہے۔ فرنٹ لائن ورکرز، ایئرپورٹ سٹاف، ڈاکٹرز، نرسز و دیگر متعلقہ سٹاف کی منکی پاکس کے حوالے سے تربیت کی جا رہی ہے۔ پنجاب کے 6 ہسپتالوں کو اس مرض کے علاج کے حوالے سے مختص کر دیا گیا ہے جن میںلاہور جنرل ہسپتال، نشتر ہسپتال ملتان، الائیڈ ہسپتال فیصل آباد، ڈی ایچ کیو ہسپتال سیالکوٹ، بے نظیربھٹو ہسپتال راولپنڈی، ویکٹوریہ ہسپتال بہاولپور شامل ہیں۔
منکی پاکس کے حوالے سے ڈاکٹر جاوید اکرم کی سربراہی میں ٹیکنیکل ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا گیا جو اپنا کام موثر انداز میں کر رہا ہے۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان میں رواں برس منکی پاکس کے دو کیسز اسلام آباداورخیبر پختونخوا میںسامنے آئے، ملک کے کسی اور حصے میں اس کی رپورٹ نہیں ہوئی۔ یہ دونوں افراد بیرون ملک سے وائرس لائے، مقامی سطح پر اس کے پھیلاؤ کا ایک بھی کیس نہیں ہے۔ گزشتہ برس بھی ملک میں دو منکی پاکس کے دو کیس رپورٹ ہوئے ، یہ دونوں افراد سعودی عرب سے ڈی پورٹ کیے گئے۔ ہمیں دنیا کے ممالک سے بات کرنی چاہیے ہے کہ وہ اپنے خارجی راستوں پر بھی سکریننگ کریں اور اگر کسی مسافر میں منکی پاکس کا شبہ ہو تو اسے وہاں ہی روکا جائے اور تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کا علاج کیا جائے۔ ہمارے پاس منکی پاکس کے علاج معالجے کے حوالے سے ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں، اس سے نمٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
ڈاکٹر آغا نصر اللہ
(ڈرماٹولوجسٹ)
1958ء میں پہلی مرتبہ ڈنمارک کی ایک لیبارٹری میں بندر میں ایک نیا وائرس پایا گیا جس کا نام منکی پاکس رکھا گیا۔ یہ بندروں کی بیماری تھی مگر 1970ء میں پہلی مرتبہ انسانوں میںاس کی تشخیص ہوئی۔ افریقا کے ملک کانگو میں اس کے زیادہ کیسز سامنے آئے اور پھر یہ مغربی افریقا میں بھی پھیلا۔ 2022ء میں منکی پاکس کا شور اٹھا، انسانوں میں ا س کے متعدد کیسز پائے گئے جس کے بعد سے اسے ’ایم پاکس‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’ڈی این اے‘ وائرس ہے جس کا تعلق چیچک کی فیملی سے ہے،اس کا جلد پر اثر چیچک سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
اب اس کی نئی قسم سامنے آئی ہے جو پہلی کی نسبت تیزی سے پھیلتی ہے، اس کی علامات ایک سے دو ہفتوں میں ظاہر ہوتی ہیں، زیادہ سے زیادہ تین ہفتے لگتے ہیں۔ جلدی مرض کے ساتھ ساتھ گلے کی خرابی، بخار ، بے چینی کی کیفیت، تھکاوٹ و دیگر علامات ہوتی ہیں۔ یہ مرض منہ سے شروع ہوتا ہے اور دیگر حصوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ہاتھ کے بیرونی حصے اور پاؤں کے بالائی حصے پر پہلے دھبے پڑتے ہیں، پھر دائرہ ابھرتا ہے اور چھالہ بنتا ہے۔ اس چھالے پر چھلکا آتا ہے جو خشک ہوکر ختم ہوجاتا ہے اور جسم پر گڑھا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے دانوں کی جسم پر تعداد 10سے 150 ہوتی ہے، یہ دانے جسم کے دیگر حصوں پر بھی ہوسکتے ہیں۔یہ مرض کبھی جسم پر پھیلتا ہے اور کبھی محدود ہی رہتا ہے۔ یہ مرض قابل علاج ہے اور مریض ٹھیک ہوجاتا ہے۔ امریکا میں اس مرض سے ایک بھی موت نہیں ہوئی تاہم ترقی پذیر ممالک میں اس کی شرح اموات 3 فیصد ہے۔ کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد لوگوں میں ایم پاکس کے حوالے سے تشویش زیادہ ہے ۔
یہ کرونا وائرس کی طرح نہیں ہے۔ یہ وباء کی طرح نہیں پھیلتا بلکہ مریض کے ساتھ براہ راست ملنے سے پھیلتا ہے۔ چھونے ، ایک دوسرے کا تولیہ، بیڈ وغیرہ استعمال کرنے اور کھانسی کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اس میں احتیاط ضروری ہے کہ مریض کے ساتھ فاصلہ برقرار رکھیں۔ ایم پاکس سے بچے، بوڑھے، بیمار، حاملہ خوتین سمیت ایسے افراد جن کی قوت مدافعت کمزور ہے، زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس مرض سے بہتری کا دورانیہ 1 سے 10 دن ہے۔ بخار و دیگر مسائل بھی 2 سے 3 ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں 80 کی دہائی میں لوگوں کو چیچک کی ویکسین لگ چکی ہے، ایسے افراد کے متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں، ان میں اس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایم پاکس کے حوالے سے سب سے اہم یہ ہے کہ اس کی جلد اور بروقت تشخیص ہو۔
اس کے لیے بڑے پیمانے پر لوگوں کو آگاہی دی جائے اور انہیں یہ اعتماد بھی دیا جائے کہ گھبرائیں نہیں۔ اس مرض کا علاج اور ویکسین دنیا میں موجود ہے۔ امریکا نے تو آج بھی چیچک کی ویکسین سٹور کر رکھی ہے کہ کسی مشکل وقت میں اس کے لوگوں کے کام آسکے۔ اس مرض کی تشخیص اہم ہے۔ لیب ٹیسٹ کے ذریعے اس کی تشخیص ہوسکتی ہے۔ سواب لے کر یا دانے کا کلچر، پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کی جا سکتی ہے۔ جنیٹک سیکوئنسنگ کے ذریعے بھی اس کی تشخیص ممکن ہے ۔ میرے نزدیک اس مرض کے حوالے سے ابھی بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کی ضرورت نہیں۔ ایئر پورٹس و دیگر داخلی مقامات پر سخت سکریننگ کی جائے اور وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔ یقین ہے کہ اللہ کرم فرمائے گا اور ہم اس وائرس سے محفوظ رہیں گے۔
[ad_2]
Source link