یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے احمد فراز

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے

یوسفؑ نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آگئے

اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے
اب کہ مقابلے پہ میرے یار آ گئے

آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے

ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے

سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آ گئے

(احمد فراز)