ٹھنڈی عید مبارک تحریر محمد اظہر حفیظ

عیدیں ہمیشہ وہی ہوئیں جو والدین کے ساتھ ہوئیں۔ اب احساس ہوتا ہے عید وہی بچے مناتے ہیں جن کے والدین سروں پر سلامت ہوتے ہیں۔ جیسے ہی والدین سر سے اٹھ جاتے ہیں ۔ عیدیں بھی اپنا راستہ بھول جاتیں ہیں۔ زندگی میں چھوٹی اور بڑی ملا کر سو سے زائد عیدیں گزریں پر یاد صرف وہی ہیں جو والدین کی زندگی میں گزریں۔
چھوٹے ہوتے تھے گاؤں میں رہتے تھے گاؤں بھی چھوٹا تھا اور والدین کے وسائل بھی شاید چھوٹے ہوتے تھے۔ پر انھوں نے ہماری زندگی میں کبھی کوئی کمی آنے نہیں دی۔ مجھے یاد ہے گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے تیار ہونے اور جاگنے کی ذمہ داری بھی میری ہی تھی۔ ابا جی نلکے کو تیز تیز چلاتے تو نیم گرم تازہ پانی نکل آتا تو کہتے آجا میرا صاحب بہت اچھا تازہ گرم پانی آگیا ہے جلدی میرا صاحب آجا۔
میں جلدی سے نلکے کے نیچے آجاتا اور وہ نلکا چلاتے جاتے مجھے نہلاتے جاتے اچھی طرح صابن لگاتے ہم زیادہ تر کیپری کا صابن استعمال کرتے تھے کیونکہ لائف بوائے سے اس وقت بھی اور آج بھی ایک عجیب بو آتی ہے۔ بڑے بھائی آج ہی کہہ رہے تھے یار وہ بندہ دیکھا میں نے پوچھا کونسا کہنے لگے جس سے لائف بوائے ٹائپ بو آتی ہے۔تو مجھے سب یاد اگیا۔ نہلا کر خشک کرنا گرمیوں میں پریکلی ہیٹ پاؤڈر اور سردیوں میں تبت ٹیلکم پاؤڈر لگانا۔ سر پر ہلکا سا سرسوں کا تیل لگا کر ٹھوڈی پکڑ کر کنگھی کرنا درمیان سے چیر نکالنا۔ نئے شلوار قمیض پہنانا اور پھر شلوار کی کریز کو مناسب جگہ سیٹ کرنا۔ نیا رومال استری شدہ تہہ لگا کر میری جیب میں ڈالنا اور آواز لگانی چوہدری صاحب چھوٹا صاحب تیار ہوگیا ہے۔ اس کو کچھ کھانے کو دیں۔ امی جی نے گرما گرم دودھ والی سویاں اور اس پر ہلکا سا دیسی گھی ڈال کر چینی کی پیالی میں دینیں۔ مجھے آج بھی وہ دیسی گھی کی مہک نہیں بھولتی۔ پاؤں میں نئی جرابیں اور مکیشن پہننی اور بھائی ساتھ تیار ہوجانا۔ ابا جی بھی تیار ہو جاتے وہ سفید شلوار قمیض پاؤں میں کھسہ اور سر پر ہمیشہ سے جناح کیپ پہنتے تھے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہر عید پر یا خاندان میں کوئی بھی خوشی غمی ہوتی ابا جی جناح کیپ پہن کر جاتے تھے۔ وہ ہمیشہ راولپنڈی قراقل ہاؤس سے جناح کیپ خریدتے تھے اپنے لیے بھی اور اپنے بڑے بھائیوں کیلئے بھی۔
ایک دن تایا جی میاں منیر احمد صاحب سے میں نے پوچھا تایا آپ سب بھائیوں نے داڑھی کب رکھی اور جناح کیپ کب سے پہننا شروع کی تو کہنے لگے بابو جب پاکستان بنا تو ہم یہ سمجھے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے تو یہاں جناح کیپ پہننا اور داڑھی رکھنا لازمی ہوگا تو پھر جب داڑھی آئی تو رکھی اور ساتھ جناح کیپ بھی پہننا شروع کردی۔میں نے اپنے بڑوں میں تایا جی میاں طفیل محمد، تایا جی میاں محمد منیر احمد، تایا جی میاں میاں محمد انور، والد صاحب میاں محمد حفیظ احمد اور ماما جی حاجی طفیل محمد صاحب کو ہمیشہ سے ہی باریش اور جناح کیپ پہنے دیکھا۔
ہم تیار ہوکر گاؤں سے باہر عیدگاہ میں نماز پڑھنے چلے جاتے وہاں زیادہ ہماری فیملی کے لوگ ہی ہوتے تھے ہمارے دادا جی ماشاءاللہ سات بھائی تھے انکے بچے اور پھر ان کے آگے بچے سب ہی عید پر گاؤں میں اکٹھے ہوتے تھے۔ بڑی رونق ہوتی تھی۔ ہمارے کزنز پھر ہمارے ابا ابا جی کے کزنز ایک میلہ لگا ہوتا تھا۔ جس گھر بھی جارہے ہیں میٹھا نمکین چائے شربت طرح طرح کے انتظامات ہوتے تھے۔ پھر حادثہ یہ ہوا کہ ہمارے پھوپھو زاد بھائی میاں عبد القیوم نے گاؤں میں پختہ سڑک بنوالی اب تو سب کو راستہ ہی مل گیا۔ سب اس سڑک پر سوار ہوئے اور کوئی لائلپور، کوئی لاہور، کوئی کراچی اور کوئی اسلام آباد جا کر آباد ہوگئے۔ عید بھی ساتھ ہی چلی گئی ۔ ایک روپیہ عید ملتی تھی اور پھر بھی کافی ساری ہو جاتی تھی۔
اب ہم سب بہت دور دور آباد ہیں ۔ ہمارے دادا والی پوری نسل اللہ پاس چلی گئی ۔ ہمارے والدین والی نسل میں سے اکثر اللہ پاس چلے گئے ہیں کچھ بزرگ حیات ہیں اللہ انکو صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی عطا فرمائے آمین ۔ ہماری نسل میں سے بھی کچھ بڑے بھائی اور بہنیں چلی گئی ہیں کیونکہ آنے کی تو شاید ترتیب ہے پر جانے کی نہیں ۔
عیدیں تو شاید اب بھی آتی ہیں پر جو ساتھ نہیں ہیں انکی یاد میں گزر جاتی ہیں۔
اس سال عید پر بچوں نے تایا سے کہہ کر میرا سوٹ بھی سلوایا۔ نماز عید پڑھی سب کو گھر آکر عیدی دی جو اب ایک روپے سے بڑھ کر کم از کم ایک ہزار ہوچکی ہے۔ مہنگائی جو بہت ہے۔ گھر میں نیا سوٹ پہن کر کھانا بنایا سب کیلئے چکن وائٹ کڑاہی اور ساتھ ملکر کھائی۔ اس میں بھی دیسی گھی کا ٹچ دیا۔ ایک بھتیجی کی شادی کردی ہے ماشاءاللہ وہ اور اسکی فیملی کو مس کیا۔
بہن اور اس کے بچوں کو مس کیا جو بڑے اللہ پاس چلے گئے ہیں سب کو یاد کیا اور سب کیلئے دعائیں کی۔
بس اسی طرح عید کا دن گزر گیا۔
عید کی گرما گرم دیسی گھی والی سویاں اب ٹھنڈی سویوں میں تبدیل ہوچکی ہیں شاید اس لیے اب عید بھی ٹھنڈی ہوچکی ہے۔ اب وہ والا ولولہ، محبتیں اور گرم جوشی نہیں ہیں۔ شاید عید بھی نہیں ہے ۔
ٹھنڈی عید مبارک

اپنا تبصرہ بھیجیں