سید آصف حسین زیدی تحریر محمد اظہر حفیظ

شاہ جی سے دوستی اور محبت کا آغاز 1990میں ہوا ۔ شاہ جی میری کلاس فیلو سعدیہ زینب کے عزیز تھے اور پھر میرے وہ عزیز ترین ہوگئے۔
روزانہ ملاقات فرض تھی ۔ میں شاہ جی کو مرشد کہتا تو شاہ جی سگریٹ کا کش لگا کر دھواں نکالنے ہوئے دانت نکال کر ہنس دیتے۔ شاہ جی اور میرے سب شوق مشترکہ تھے۔ شکار کھیلنا، فوٹوگرافی کرنا اور یاروں کے یار ہونا۔
مرشد کے پاس سوزوکی ٹریل بائیک تھی ہوسٹل میں بائیک ہونے کا مطلب مرشد میرے کمرے میں ہیں کئی دوست ملنے چلے آتے تھے۔
شاہ جی گھر میں سب سے چھوٹے تھے اماں چھوٹو کہتیں تھیں اس لیے دوست احباب ،بیوی بچے سب چھوٹو ہی کہتے تھے۔
مرشد گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے طالب علم تھے۔ اب انکی محبت میں گورنمنٹ کالج کے سارے طالب علم ہمارے بھی دوست تھے۔ کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ شاہ جی نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھتے ہیں یا میں گورنمنٹ کالج میں پڑھتا ہوں ۔
میری بیٹیاں اکثر پوچھتی ہیں۔
کیا آصف انکل نیشنل کالج آف آرٹس میں آپکے کلاس فیلو تھے۔
مرشد بڑے دل گردے والے میرے دوست تھے۔ ہم اکثر فوٹوگرافی اور شکار کرنے ساتھ ساتھ جاتے تھے ۔
میرا پہلا اسلحہ لائسنس بھی شاہ جی نے بنا کر گفٹ کیا تھا اور گن بڑے بھائی میاں نواز احمد نے گفٹ کی تھی۔
ساری زندگی کی یادیں شاہ جی سے وابستہ ہیں۔ چونتیس سال زندگی کے ساتھ ساتھ۔
شاہ جی نے باجی رابعہ سے شادی کرلی اور اللہ نے دو بیٹیاں عطا کیں بڑی نے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے فلم میکنگ میں گریجویشن کی ہے اور چھوٹی ابھی او لیولز کی طالبہ ہیں ۔ رابعہ باجی ایک وفا شعار بیوی اور اردو کی استاد ہیں۔
شادی کے فورا بعد شاہ جی بائیک سمیت بس سے ٹکرا گئے سر پر شدید چھوٹ لگی اور اللہ نے معجزہ دکھایا اور شاہ جی اپنی پرانی حرکات پر واپس آگئے۔ پھر فوٹوگرافی اور شکار زندگی کا معمول تھا۔ نو سال پہلے میانوالی شکار کیلئے جارہے تھے کہ سائیکل سوار کو بچاتے گاڑی درخت سے ٹکرا گئی اور شاہ جی کے سر پر دوبارہ چوٹ لگ گئی۔ نو سال سے شاہ جی بیڈ پر پیرالائز تھے اور رابعہ باجی خدمت پر معمور ۔
اتنی باہمت اور خدمت گزار بیوی میری نظر سے دوسری نہیں گزری۔ رابعہ باجی مجھے ہمیشہ ابا اور بچے چاچا کہتے ہیں ۔ شاہ جی میاں کہہ کر بلاتے تھے۔ میں شاہ جی کے سارے خاندان کی تقریبات میں شامل ہوتا تھا اور شاہ جی ہماری طرف۔ شاہ جی کی بیماری کے دنوں میں انکی طرف سے میں خوشی غمی میں شریک ہوتا تھا۔ آج شاہ جی چونتیس سالہ رفاقت کو چھوڑ کر اگلے جہاں کو سفر کرگئے۔ پہلے ظفر کا فون سرگودھا سے آیا اور پھر باجی رابعہ کا فون اگیا۔ چھوٹو چلا گیا ہے۔ میرے پاس رونے کے سوا کوئی حل نہیں ہے مشترکہ دوستوں کو میسج کئے اور روتا رہا ۔ ڈاکٹر کو لاہور فون کیا کہ کیا لاہور کیلئے سفر کرسکتا ہوں انھوں نے صاف منع کردیا ابھی 18دسمبر کو آپکی میجر سرجری ہوئی ہے نہیں جاسکتے۔ بہت بتایا میرا عزیزترین دوست ہے۔ اسکی تدفین میں شامل ہونا ہے بھائی ساتھ چلا جاؤں گا ۔ پر اجازت نہیں ملی۔ اس ہفتے میں تایا زاد بھائی ظفر انور، بھابھی نرگس، پھوپھو اختر اللہ کو پیارے ہوگئے جنازوں میں شریک نہیں ہوسکا اللہ کی رضا سمجھی اور صبر کیا۔ پر اج پہلی دفعہ بے بسی محسوس ہوئی۔ بیماری کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہمیشہ ہمت سے کیا۔ پر آج ہمت جواب دے گئی ۔ لیٹا رو رہا ہوں اور لکھ رہا ہوں اور کچھ کر بھی تو نہیں سکتا۔مرشد رب دے حوالے ۔ اللہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین
گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
مرشد مجھے ابھی لاہور ہونا چاہیے تھا میری غلطی ڈاکٹر سے اجازت لیکر اسلام آباد آگیا سانس لینے میں دقت تھی۔ اس نے اسی وقت کہا تھا بار بار سفر نہیں کر سکتے ۔ اکیس جنوری کو شاید سفر کی اجازت مل جائے۔ پھر لاہور آؤں گا بشرط زندگی۔ مرشد آج کی معافی دے دیں مجھے اچھی طرح احساس سے کہ رابعہ اور بچوں کو میری ضرورت ہے سب مجھے وہاں تلاش کریں گے باجی رابعہ کو تو پتہ ہے پر سب کو تو علم نہیں ۔ پر میری بے بسی اور بیماری سامنے دیوار بنی کھڑی ہے۔ مجھے معاف کردیں جیسا کہ اپنے ہمیشہ کیا ہے۔ میرے مرشد ، قریب ترین دوست ،میرے استاد میں گواہی دیتا ہوں آپ نے ہمیشہ سب کیلئے آسانیاں کی اللہ آپ کیلئے اگلے جہاں کو آسان بنائیں آمین ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں