دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں جگر مرادآبادی

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں صرف نگاہ و آہ کئے جا رہا ہوں میں فرد عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں رحمت کو بے پناہ کئے جا رہا ہوں میں ایسی بھی اک مزید پڑھیں

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے عرفان صدیقی

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے چھو گیا تھا کبھی اس جسم کو اک شعلۂ درد آج تک خاک سے اڑتے ہیں شرارے جیسے حوصلے دیتا ہے یہ ابر گریزاں کیا کیا زندہ ہوں دشت میں ہم اس کے سہارے جیسے سخت جاں ہم مزید پڑھیں

یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا احمد مشتاق

۔۔۔۔ یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا درخت کاٹ لیے سائبان بیچ دیا دری لپیٹ کے رکھ دی بساط الٹ ڈالی چراغ توڑ دیے شمع دان بیچ دیا خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیاز مندوں نے نوائے موسمِ گل کا نشان بیچ دیا اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر مزید پڑھیں

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے احمد مشتاق

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے مزید پڑھیں

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو منیر نیازی

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو پھرتے مزید پڑھیں

شہر در شہر گھر جلائے گئے ناصر کاظمی

شہر در شہر گھر جلائے گئے یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے اک طرف جھوم کر بہار آئی اک طرف آشیاں جلائے گئے اک طرف خونِ دل بھی تھا نایاب اک طرف جشنِ جم منائے گئے کیا کہوں کس طرح سرِ بازار عصمتوں کے دئیے بجھائے گئے آہ وہ خلوتوں کے سرمائے مجمعِ عام میں مزید پڑھیں

پہنچے گور کنارے ہم ناصر کاظمی

پہنچے گور کنارے ہم بس غمِ دوراں ہارے ہم سب کچھ ہار کے رستے میں بیٹھ گئے دکھیارے ہم ہر منزل سے گزرے ہیں تیرے غم کے سہارے ہم دیکھ خیال خاطر دوست بازی جیت کے ہارے ہم آنکھ کا تارا آنکھ میں ہے اب نہ گنیں گے تارے ہم 

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے ناصر کاظمی

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے بہاروں میں اب کی نۓ گُل کھِلے نہ جانے کہاں لے گۓ قافلے مسافر بڑی دور جا کر ملے وہی وقت کی قید ہے درمیاں وہی منزلیں اور وہی فاصلے جہاں کوئ بستی نظر آ گئ وہیں رک گۓ اجنبی قافلے تمھیں دل گرفتہ نہیں ساتھیو ہمیں مزید پڑھیں

دیکھ ًمحبت کا دستور ناصر کاظمی

دیکھ محبت کا دستور تو مجھ سے میں تجھ سے دور تنہا تنہا پھرتے ہیں دل ویراں آنکھیں بے نور دوست بچھڑتے جاتے ہیں شوق لیے جاتا ہے دور ہم اپنا غم بھول گئے آج کسے دیکھا مجبور دل کی دھڑکن کہتی ہے آج کوئی آئے گا ضرور کوشش لازم ہے پیارے آگے جو اس مزید پڑھیں