عشق میں جیت ہوئی یا مات :ناصر کاظمی

عشق میں جیت ہوئی یا مات آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات یوں آیا وہ جانِ بہار، جیسے جگ میں پھیلے بات رنگ کھلے صحرا کی دھوپ، ذلف گھنے جنگل کی رات کچھ نہ سنا اور کچھ نہ کہا، دل میں رہ گئی دل کی بات یار کی نگری کوسوں دور، کیسے کٹے گی مزید پڑھیں

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے ناصر کاظمی

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہل دنیا نے بقدر تشنہ لبی پرشس وفا نہ مزید پڑھیں

ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں ناصر کاظمی

ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں یہاں تک بڑھ گئے آلام ہستی کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں کہاں تک تاب لائے ناتواں دل کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں مزید پڑھیں

حاصل عشق تیرا حسن پشیماں ہی سہی :ناصر کاظمی

حاصل عشق ترا حسن پشیماں ہی سہی میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی حسن بھی حسن ہے محتاج نظر ہے جب تک شعلۂ عشق چراغ تہ داماں ہی سہی کیا خبر خاک ہی سے کوئی کرن پھوٹ پڑے ذوق آوارگیٔ دشت و بیاباں ہی سہی پردۂ گل ہی سے شاید کوئی آواز آئے مزید پڑھیں

او میرے مصروف خدا : ناصر کاظمی

او میرے مصروف خدا اپنی دنیا دیکھ ذرا اتنی خلقت کے ہوتے شہروں میں ہے سناٹا جھونپڑی والوں کی تقدیر بجھا بجھا سا ایک دیا خاک اڑاتے ہیں دن رات میلوں پھیل گئے صحرا زاغ و زغن کی چیخوں سے سونا جنگل گونج اٹھا سورج سر پہ آ پہنچا گرمی ہے یا روز جزا پیاسی مزید پڑھیں

ختم ہوا تاروں کا راگ : ناصرکاظمی

ختم ہوا تاروں کا راگ جاگ مسافر اب تو جاگ دھوپ کی جلتی تانوں سے دشتِ فلک میں لگ گئی آگ دن کا سنہرا نغمہ سن کر ابلقِ شب نے موڑی باگ کلیاں جھلسی جاتی ہیں سورج پھینک رہا ہے آگ یہ نگری اندھیاری ہے اس نگری سے جلدی بھاگ

رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ

رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ اب کی فصل بہار سے پہلے رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ کیا کہوں اب تمہیں خزاں والو جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ دل ترے بعد سو گیا ورنہ شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ ناصر مزید پڑھیں

ہر اندھیری رات میں آنکھوں کا تارا شکر ہے

ہر اندھیری رات میں آنکھوں کا تارا شکر ہے ہر مصیبت پر دل غمگیں پکارا شکر ہے ہے زمیں سےآسماں تک خواہشوں کی سلطنت دوسری جانب چلو جس کا کنارہ شکر ہے ہر قدم پر اک نئی قوت نئی تعبیر دے ہم گناہگاروں فقیروں کا سہارا شکر ہے شکر ہے سر پر اٹھانا ہی نہیں مزید پڑھیں

مایوس نہ ہو اداس راہی ناصرکاظمی

مایوس نہ ہو اداس راہی پھر آۓ گا دورِ صبح گاہی اے منتظرِ طلوعِ فردا بدلے گا جہانِ مرغ و ماہی پھر خاک نشیں اُٹھائیں گے سر مٹنے کو ہے نازِ کج کلاہی انصاف کا دن قریب تر ہے پھر داد طلب ہے بے گناہی پھر اہلِ وفا کا دور ہوگا ٹوٹے گا طلسمِ کم مزید پڑھیں