یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا احمد مشتاق

۔۔۔۔
یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لیے سائبان بیچ دیا

دری لپیٹ کے رکھ دی بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دیے شمع دان بیچ دیا

خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیاز مندوں نے
نوائے موسمِ گل کا نشان بیچ دیا

اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا

یہی ہے بھوک کا عالم تو دیکھنا اک دن
کہ ہم نے دھوپ بھرا آسمان بیچ دیا
احمد مشتاق