نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے ناصر کاظمی

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے
بہاروں میں اب کی نۓ گُل کھِلے
نہ جانے کہاں لے گۓ قافلے
مسافر بڑی دور جا کر ملے
وہی وقت کی قید ہے درمیاں
وہی منزلیں اور وہی فاصلے
جہاں کوئ بستی نظر آ گئ
وہیں رک گۓ اجنبی قافلے
تمھیں دل گرفتہ نہیں ساتھیو
ہمیں بھی زمانے سے ہیں کچھ گِلے
ہمیں بھی کریں یاد اہلِ چمن
چمن میں اگر کوئ غنچہ کھِلے
ابھی اور کتنی ہے میعادِ غم
کہاں تک ملیں گے وفا کے صِلے