یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا احمد مشتاق

۔۔۔۔ یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا درخت کاٹ لیے سائبان بیچ دیا دری لپیٹ کے رکھ دی بساط الٹ ڈالی چراغ توڑ دیے شمع دان بیچ دیا خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیاز مندوں نے نوائے موسمِ گل کا نشان بیچ دیا اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر مزید پڑھیں

غزل احمد مشتاق

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے مزید پڑھیں