ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں منیر نیازی

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا مزید پڑھیں

بے گانگی کا ابر گراں بار کھل گیا منیر نیازی آواز اظہر نیاز

بے گانگی کا ابر گراں بار کھل گیا شب میں نے اس کو چھیڑا تو وہ یار کھل گیا گلیوں میں شام ہوتے ہی نکلے حسین لوگ ہر رہ گزر پہ طبلۂ عطار کھل گیا ہم نے چھپایا لاکھ مگر چھپ نہیں سکا انجام کار راز دل زار کھل گیا تھا عشرت شبانہ کی سرمستیوں مزید پڑھیں

وہ جو میرے پاس سے ہو کر کسی کے گھر گیا منیر نیازی

وہ جو میرے پاس سے ہو کر کسی کے گھر گیا ریشمی ملبوس کی خوشبو سے جادو کر گیا اک جھلک دیکھی تھی اس روئے دل آرا کی کبھی پھر نہ آنکھوں سے وہ ایسا دل ربا منظر گیا شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو مزید پڑھیں

یہ لڑکی جو اس وقت سرِ بام کھڑی ہے منیرنیازی​

یہ لڑکی جو اس وقت سرِ بام کھڑی ہے اُڑتا ہوا بادل ہے کہ پھولوں کی لڑی ہے شرماتے ہوئے بندِ قبا کھولے ہیں اس نے یہ شب کے اندھیروں کے مہکنے کی گھڑی ہے اک پیرہنِ سُرخ کا جلوہ ہے نظر میں اک شکل نگینے کی طرح دل میں جڑی ہے کھلتا تھا کبھی مزید پڑھیں

اِس مینہہ سے بَھری شب میں بجلی جو کڑک جائے منیر نیازی

اِس مینہہ سے بَھری شب میں بجلی جو کڑک جائے اُس شوخ کا ننھا سا دِل ڈر سے دَھڑک جائے اُس سمت چلو تم بھی اے بھٹکے ہوئے لوگو جس سِمت یہ ویراں سی چُپ چاپ سڑک جائے یہ ڈُوبتا سُورج اور اُس کی لبِ بام آمد تا حدِ نظر اُس کے آنچل کی بَھڑک مزید پڑھیں

ہیں آباد لاکھوں جہاں میرے دل میں منیرؔ نیازی

ہیں آباد لاکھوں جہاں میرے دل میں کبھی آؤ دامن کشاں میرے دل میں اترتی ہے دھیرے سے راتوں کی چپ میں ترے روپ کی کہکشاں میرے دل میں ابھرتی ہیں راہوں سے کرنوں کی لہریں سسکتی ہیں پرچھائیاں میرے دل میں وہی نور کی بارشیں کاخ و کو پر وہی جھٹپٹے کا سماں میرے مزید پڑھیں

ان سے نین ملا کے دیکھو منیر نیازی

ان سے نین ملا کے دیکھو یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو دوری میں کیا بھید چھپا ہے اس کا کھوج لگا کے دیکھو کسی اکیلی شام کی چپ میں گیت پرانے گا کے دیکھو آج کی رات بہت کالی ہے سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو دل کا گھر سنسان پڑا ہے دکھ کی مزید پڑھیں

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو منیر نیازی

اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو پھرتے مزید پڑھیں