رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ

رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ اب کی فصل بہار سے پہلے رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ کیا کہوں اب تمہیں خزاں والو جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ دل ترے بعد سو گیا ورنہ شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ ناصر مزید پڑھیں

ہر اندھیری رات میں آنکھوں کا تارا شکر ہے

ہر اندھیری رات میں آنکھوں کا تارا شکر ہے ہر مصیبت پر دل غمگیں پکارا شکر ہے ہے زمیں سےآسماں تک خواہشوں کی سلطنت دوسری جانب چلو جس کا کنارہ شکر ہے ہر قدم پر اک نئی قوت نئی تعبیر دے ہم گناہگاروں فقیروں کا سہارا شکر ہے شکر ہے سر پر اٹھانا ہی نہیں مزید پڑھیں

مایوس نہ ہو اداس راہی ناصرکاظمی

مایوس نہ ہو اداس راہی پھر آۓ گا دورِ صبح گاہی اے منتظرِ طلوعِ فردا بدلے گا جہانِ مرغ و ماہی پھر خاک نشیں اُٹھائیں گے سر مٹنے کو ہے نازِ کج کلاہی انصاف کا دن قریب تر ہے پھر داد طلب ہے بے گناہی پھر اہلِ وفا کا دور ہوگا ٹوٹے گا طلسمِ کم مزید پڑھیں

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے ناصر کاظمی

کیا دن مجھے عشق نے دکھاۓ اِک بار جو آۓ پھر نہ آۓ اُس پیکرِ ناز کا فسانہ دل ہوش میں آۓ تو سُناۓ وہ روحِ خیال و جانِ مضموں دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لاۓ آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر عارض کہ شراب تھتھراۓ مہکی ہوئی سانس نرم گفتار ہر ایک روش مزید پڑھیں

دیوارِ گریہ ابن انشا

(بہ شکریہ “اردو محفل” و جناب تابش صدیقی) ٭​ ایک دیوار گریہ بناؤ کہیں یا وہ دیوار گریہ ہی لاؤ یہیں اب جو اس پار بیت المقدس میں ہے تاکہ اس سے لپٹ اردن و مصر کے، شام کے ان شہیدوں کو یکبار روئیں ان کے زخموں کو اشکوں سے دھوئیں وہ جو غازہ میں مزید پڑھیں

برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ اسرار الحق مجاز

برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ ہاں میری محبت کا جواب اور زیادہ روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ آوارہ و مجنوں ہی پہ موقوف نہیں کچھ ملنے ہیں ابھی مجھ کو خطاب اور زیادہ اٹھیں گے ابھی اور بھی طوفاں مرے دل سے دیکھوں مزید پڑھیں

کش دیو اور میر پری کا قصہ

روایت ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں ان کے ایک فرمانبردار دیو نے اپنی خدمات کا صلہ یوں چاہا کہ اسے ایک پری کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دی جائے اس دیو کا نام کش تھا اور اس کی حسین محبوبہ میر پری کہلاتی تھی- ان دونوں نے کوہ سلیمان کو عبور کر مزید پڑھیں

محروم خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی ناصر کاظمی

محروم خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی تیرا یہ رنگ اے شب ہجراں نہ تھا کبھی تھا لطف وصل اور کبھی افسون انتظار یوں درد ہجر سلسلہ جنباں نہ تھا کبھی پرساں نہ تھا کوئی تو یہ رسوائیاں نہ تھیں ظاہر کسی پہ حال پریشاں نہ تھا کبھی ہر چند غم بھی تھا مگر احساس مزید پڑھیں

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی ناصر کاظمی

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی اے دل کسے نصیب یہ توفیق اضطراب ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی تیرے کرم سے اے الم حسن آفریں دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی جوش جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ مزید پڑھیں

غزل توصیف تبسم

مرتے مرتے روشنی کا خواب تو پورا ہوا بہہ گیا سارا لہو تن کا تو دن آدھا ہوا راستوں پر پیڑ جب دیکھے تو آنسو آ گئے ہر شجر سایہ تھا تیری یاد سے ملتا ہوا صبح سے پہلے بدن کی دھوپ میں نیند آ گئی اور کتنا جاگتا میں رات کا جاگا ہوا شہر مزید پڑھیں