کش دیو اور میر پری کا قصہ

روایت ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں ان کے ایک فرمانبردار دیو نے اپنی خدمات کا صلہ یوں چاہا کہ اسے ایک پری کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دی جائے اس دیو کا نام کش تھا اور اس کی حسین محبوبہ میر پری کہلاتی تھی- ان دونوں نے کوہ سلیمان کو عبور کر کے وادی میں قدم رکھا اور سلیمان کی چوٹی یا تخت سلیمان کو اپنا مسکن بنایا جہاں اب سری نگر کا شہرآباد ہے-

کش اور میر کے اسی جوڑے کے ناموں کی مناسبت سے اژدھے کی جھیل کا نام کشمیر مشہور ہوا لیکن اژدھے نے حضرت سلیمان کے ان کے دونوں نام لیواؤں کو بھی چین سے نہیں رہنے دیا- کش دیو اور میرپری اس اژدھے سے بہت نالاں تھے. انہوں نے خدا سے دعا مانگی کہ اللہ تعالی حضرت سلیمان کے صدقے اس اژدھے کو فنا کر دے.

ایک دن دعا کرتے کرتے دونوں کی آنکھ لگ گئی تو خواب میں ایک غیبی آواز سنائی دی کہ ایک بزرگ اژدھے کو وادی میں آ کر اسے رام کرے گا.
پھر یوں ہوا کہ اچانک اژدھا غائب ہو گیا. کش دیو اور میر پری نے کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ پہاڑ کی اونچی چوٹی پر گھنے جنگل میں ایک بزرگ بیٹھے عبادت کر رہے ہیں اور اژدھا موم ہو کر ان کے قدموں میں سر جھکائے بیٹھا ہے. بزرگ نے اژدھےکو حکم دیا کہ وہ حضرت سلیمان کے ان نام لیواؤں کو وادی میں رہنے کی جگہ دیں.
اژدھا بولا کہ حضور میں آپ کا خادم ہوں کہ آپ اشرف المخلوقات ہیں. آپ میرے ساتھ چل کر جہاں بھی چاہیں قیام فرمائیں. میں آپ کی خدمت کرتا رہوں گا. تب ان بزرگوں نے کش اور میر سے کہا کہ وہ اسی جنگل میں قیام کریں اور کل صبح یا شام کے وقت پہاڑ کی اونچی چوٹی سے وہ منظر دیکھیں جو انہیں تخت سلیمان یعنی موجودہ سری نگر میں یہاں سے صاف دکھائی دے گا.

یہ کہہ کر وہ بزرگ اژدھے کی پیٹھ پر سوار ہو کر سری نگر کی طرف چل دیے اژدھے نے کہا کہ حضور اگر آپ ساری عمر یوں ہی میری پیٹھ پر گزار دیں تو یہ میرے لیے بہت بڑی سعادت ہوگی.

روحانی بزرگ نے کہا کہ میرے پاؤں مٹی پر ہونے چاہیے کیونکہ میں اسی صورت میں اپنی عبادت کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہوں. اژدھے نے اپنی دم کو پانی پر زور سے مارا اور اس جگہ کی زمین خشک ہو گئی. انہوں نے یہاں پر صبح کی نماز ادا کی اور دعا مانگنے میں مصروف ہو گئے.

پہاڑ کی چوٹی سے کش دیو اور میر پری یہ سارا ماجرہ دیکھ رہے تھے.
کیا دیکھتے ہیں کہ ان بزرگ کی روحانی قوت سے جیسے ان کا جسم بھی پھیلتا جا رہا ہے اور اژدھا اپنی پوری قوت سے پانی کو دھکیلتے ہوئے پیچھے کی طرف کھسک رہا ہے .
دیکھتے ہی دیکھتے جھیل خشک ہونے لگی اژدھے نے درخواست کی کہ حضور مجھے بھی اپنے قدموں میں رہنے کی اجازت دے دیجئے.
جواب ملا کہ ہاں تم یہاں سے کچھ دورایک جھیل ہے تم وہاں رہ سکتے ہو لیکن پہاڑوں اور جنگلوں پر بھی تمہارا کوئی اختیار نہیں ہوگا. اور جب تک ہمارے 500 نام لیوا بھی اس سرزمین پر باقی رہیں گے تم اس وادی کو دوبارہ جھیل میں نہیں بدل سکتے.

اس کے بعد 500 بزرگوں کا ایک قافلہ آیا اور انہوں نے وادی میں ڈیرے ڈالے .پھر قدم قدم پر بستیاں بستی رہیں لیکن اژدھا اپنی جھیل سے باہر نہ نکلا اور نہ کبھی اس کی اولاد نے انسانوں کو تنگ کیا.

کہا جاتا ہے کہ چشموں میں پائی جانے والی مچھلیاں بھی اسی اژدھے کی اولاد ہیں. اسی لیے چشمے کی مچھلی کا شکار بھی ہم لوگوں پر حرام ہے.