پہنچے گور کنارے ہم ناصر کاظمی

پہنچے گور کنارے ہم بس غمِ دوراں ہارے ہم سب کچھ ہار کے رستے میں بیٹھ گئے دکھیارے ہم ہر منزل سے گزرے ہیں تیرے غم کے سہارے ہم دیکھ خیال خاطر دوست بازی جیت کے ہارے ہم آنکھ کا تارا آنکھ میں ہے اب نہ گنیں گے تارے ہم 

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے ناصر کاظمی

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے بہاروں میں اب کی نۓ گُل کھِلے نہ جانے کہاں لے گۓ قافلے مسافر بڑی دور جا کر ملے وہی وقت کی قید ہے درمیاں وہی منزلیں اور وہی فاصلے جہاں کوئ بستی نظر آ گئ وہیں رک گۓ اجنبی قافلے تمھیں دل گرفتہ نہیں ساتھیو ہمیں مزید پڑھیں

دیکھ ًمحبت کا دستور ناصر کاظمی

دیکھ محبت کا دستور تو مجھ سے میں تجھ سے دور تنہا تنہا پھرتے ہیں دل ویراں آنکھیں بے نور دوست بچھڑتے جاتے ہیں شوق لیے جاتا ہے دور ہم اپنا غم بھول گئے آج کسے دیکھا مجبور دل کی دھڑکن کہتی ہے آج کوئی آئے گا ضرور کوشش لازم ہے پیارے آگے جو اس مزید پڑھیں

عشق میں جیت ہوئی یا مات :ناصر کاظمی

عشق میں جیت ہوئی یا مات آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات یوں آیا وہ جانِ بہار، جیسے جگ میں پھیلے بات رنگ کھلے صحرا کی دھوپ، ذلف گھنے جنگل کی رات کچھ نہ سنا اور کچھ نہ کہا، دل میں رہ گئی دل کی بات یار کی نگری کوسوں دور، کیسے کٹے گی مزید پڑھیں

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے ناصر کاظمی

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہل دنیا نے بقدر تشنہ لبی پرشس وفا نہ مزید پڑھیں

ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں ناصر کاظمی

ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں یہاں تک بڑھ گئے آلام ہستی کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں کہاں تک تاب لائے ناتواں دل کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں مزید پڑھیں

حاصل عشق تیرا حسن پشیماں ہی سہی :ناصر کاظمی

حاصل عشق ترا حسن پشیماں ہی سہی میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی حسن بھی حسن ہے محتاج نظر ہے جب تک شعلۂ عشق چراغ تہ داماں ہی سہی کیا خبر خاک ہی سے کوئی کرن پھوٹ پڑے ذوق آوارگیٔ دشت و بیاباں ہی سہی پردۂ گل ہی سے شاید کوئی آواز آئے مزید پڑھیں

او میرے مصروف خدا : ناصر کاظمی

او میرے مصروف خدا اپنی دنیا دیکھ ذرا اتنی خلقت کے ہوتے شہروں میں ہے سناٹا جھونپڑی والوں کی تقدیر بجھا بجھا سا ایک دیا خاک اڑاتے ہیں دن رات میلوں پھیل گئے صحرا زاغ و زغن کی چیخوں سے سونا جنگل گونج اٹھا سورج سر پہ آ پہنچا گرمی ہے یا روز جزا پیاسی مزید پڑھیں

ختم ہوا تاروں کا راگ : ناصرکاظمی

ختم ہوا تاروں کا راگ جاگ مسافر اب تو جاگ دھوپ کی جلتی تانوں سے دشتِ فلک میں لگ گئی آگ دن کا سنہرا نغمہ سن کر ابلقِ شب نے موڑی باگ کلیاں جھلسی جاتی ہیں سورج پھینک رہا ہے آگ یہ نگری اندھیاری ہے اس نگری سے جلدی بھاگ