عشق میں جیت ہوئی یا مات :ناصر کاظمی

عشق میں جیت ہوئی یا مات
آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات

یوں آیا وہ جانِ بہار،
جیسے جگ میں پھیلے بات

رنگ کھلے صحرا کی دھوپ،
ذلف گھنے جنگل کی رات

کچھ نہ سنا اور کچھ نہ کہا،
دل میں رہ گئی دل کی بات

یار کی نگری کوسوں دور،
کیسے کٹے گی بھاری رات

بستی والوں سے چھپ کر،
رو لیتے ہیں پچھلی رات

سنّاٹوں میں سنتے ہیں،
سنی سنائی کوئی بات

پھر جاڑے کی رت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات
۔۔۔۔
ناصر کاظمی