کچھ کہہ کے خموش ہو گئے ہم ناصر کاظمی

کچھ کہہ کے خموش ہو گۓ ہم
قصٌہ تھا دراز کھو گۓ ہم

تو کون ہے تیرا نام کیا ہے
کیا سچ ہے کہ تیرے ہو گۓ ہم

زلفوں کے دھیان میں لگی آنکھ
پُر کیف ہوا میں سو گۓ ہم