بالِ جبریل

یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

تری زندگی اسی سے ، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی ، نہ رہی تو روسیاہی

نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے ، تو نہ رہ نشیں نہ راہی

مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیرِ تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کج کلاہی

یہ معاملے ہیں نازک ، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی

تو ہما کا ہے شکاری ، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ و ماہی

تو عرب ہو یا عجم ہو ، ترا لا الہ الا
لغتِ غریب ، جب تک ترا دل نہ دے گواہی

بالِ جبریل