جو جانے وہ جیتے تحریر محمد اظہر حفیظ

جو جانے وہ جیتے پاکستان ٹیلی ویژن لاہور کا کوئز پروگرام تھا ۔ جسکو ایوب خاور صاحب پروڈیوس کر رہے تھے۔ اور ضیاء محی الدین صاحب بطور اینکر اس پروگرام میں ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ یہ ایک سافٹ وئیر بیس پروگرام تھا اور اس پروگرام کیلئے زبیر علی صاحب نے سافٹ وئیر تیار کیا تھا۔ جو آج کل خیبر ٹی وی میں فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ میرے فرائض اس کے گرافکس اور پروموشنل کمپین تیار کرنا تھا۔ سیٹ اعظم ملک صاحب نے لگایا تھا اور لائٹ اور کیمرہ اجمل صاحب کی ذمہ داری تھی میوزک مجاہد حسین صاحب ترتیب دے رہے تھے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ذمہ داری زعیم صاحب پر تھیں۔ ریہرسل جاری تھی روزانہ ہی ضیاء صاحب سے ملاقات کا موقع مل جاتا تھا بہت کچھ جاننے کو ملتا تھا۔ ضیاء صاحب تھوڑے سخت مزاج انسان تھے پر تھوڑا سا شربت پی کر نرم لہجہ اختیار کر لیتے تھے۔ ٹائٹل 18 سیکنڈ کا تھا اور مجاہد حسین صاحب 28 سیکنڈ کا میوزک بنا کر لے آئے یہ لاہور سنٹر سے دور رہتے تھے۔ اب مشکل یہ تھی کہ وہ واپس گھر جائیں اور میوزک کا دورانیہ کم کرکے لائیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے آفر کی جی میں آڈیو کا دورانیہ کم کر دیتا ہوں اس سے وقت بچ جائے گا۔ ۔ مجاہد حسین صاحب اور میں کمپیوٹر پر آڈیو ایڈیٹ کرنے لگ گئے۔
مجاہد صاحب جہاں کٹ لگانا ہوتا تھا تالی بجاتے اور میں کٹ لگا دیتا۔ آخر میوزک کا دورانیہ 18 سیکنڈ ہو ہی گیا۔ میں نے اس میوزک کو ٹیپ پر تین دفعہ ریکارڈ کردیا تاکہ بار بار ریوائنڈ نہ کرنا پڑے ۔
اب ضیاء محی الدین صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تو انھوں نے اپنے چشمے اتارے دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور ایوب خاور صاحب اس میوزک کو وی سی آر پر پلے کرنے لگے. کئی دفعہ اس میوزک کو سننے کے بعد انھوں نے ایک نیا فیصلہ سنا دیا کہ سیکنڈ ون از دی بیسٹ۔
میں نے عرض کی سر تینوں میوزک ایک ہی ہیں صرف سہولت کیلئے تین دفعہ ریکارڈ کئے ہیں۔
میری بہترین کلاس کرنے کے بعد انھوں نے پوچھا کیا تم میوزک مجھ سے بہتر سمجھتے ہو۔ جی ہرگز بھی نہیں ہم آپکے بچوں کی طرح ہیں آپ استاد ہیں۔ پھر معافی ہوئی ایوب خاور صاحب نے میری جان خلاصی کروائی یار اظہر تم دوسرا والا ہی لگا دو۔
اس طرح دوسرا میوزک فائنل ہوگیا۔
اب ایک ایشو سافٹ وئیر میں آ ْگیا۔ کہ جب بھی سوال دوبارہ پوچھا جائے تو کوئی دوسرا سوال آجائے۔ اس پر زبیر علی جو چھوٹے بھائی ہیں سے کہا ایسے کرو ہر فولڈر میں ایک طرح کے سوال رکھو اگلے فولڈر میں دوسرے وہ سمجھ گئے اور کئی دن کی محنت سے ہم اس پروگرام کو ریکارڈ کرنے کے قابل ہو سکے۔ ضیاء صاحب نے پوچھا کہ پھر یہ مسئلہ کیسے حل ہوا تو زبیر بھائی کہنے لگے اظہر بھائی نے کچھ راہنمائی کی ہے۔ ضیاء صاحب کہنے لگے مجھے پہلے ہی پتہ تھا یہ میوزک کا آدمی نہیں ہے اسکی فیلڈ کوئی دوسری ہے آج پتہ چلا کہ سافٹ وئیر کا ماہر ہے ہم سب مسکرا کر رہ گئے۔ ایوب خاور صاحب کو بتایا سر سافٹ وئیر تیار ہے ریکارڈنگ شروع کرسکتے ہیں کہنے لگے پہلے سافٹ وئیر کو رینڈر تو کر لو پھر وقت مانگتے پھرو گے۔ میں بھی اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سمجھنے لگا ہوں۔ میں نے کہا سر گرافکس اور ایڈیٹنگ رینڈرنگ کا وقت لیتے ہیں سافٹ وئیر نہیں ۔ وہ مسکراتے ہوئے چل دئیے یار تم لوگ ہمیں بچہ سمجھتے ہو۔ یوں جو جانے وہ جیتے کی 26 اقساط ریکارڈ ہوگئیں تھیں۔ اور سیکنڈ والا میوزک ہی چلتا رہا۔ کیونکہ سیکنڈ ون از دی بیسٹ۔
ضیاء صاحب آواز کی دنیا کے بادشاہ تھے شاید ہی اتنا بڑا براڈ کاسٹر کوئی دوسرا پاکستان میں آیا ہو۔ بہت ہی خوش لباس انسان تھے ۔ ہمیشہ ٹپ ٹاپ اور مسکراتے رہتے تھے۔ ہم نے ہمیشہ انکو صاف ستھرا ، کنگھی کیئے ہوئے شیو بنائے ہوئے ہی دیکھا یہ ریکارڈنگ تقریبا دو ماہ جاری رہی ۔
کل اطلاع ملی کہ انکا انتقال ہوگیا۔ پاکستان ایک بڑے اثاثے سے محروم ہوگیا۔ اللہ تعالی اگلے جہاں کے مراحل آسان کریں امین ۔ دعاوں کی درخواست ہے۔