مستنصر حسین تارڑ پیدائش 1مارچ

مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے مشہور سفر نامہ نگار ہیں۔ اب تک پچاس سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت سفر نامے اور ناول نگاری ہے۔ اس کے علاوہ ڈراما نگاری، افسانہ نگاری اور فن اداکاری سے بھی وابستہ رہے۔ مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب ہیں۔
مستنصر کا آبائی تعلق گجرات سے ہے لیکن اس وقت لاہور میں رہتے ہیں۔ بچپن میں قیام پاکستان کو دیکھنے کا موقع ملا-

مستنصر حسین تارڑ کے والد رحمت خان تارڑ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مستنصر صاحب نے اپنے والد سے گہرا اثر قبول کیا۔
ابتدائی حالات
مستنصر حسین تارڑ 1 مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بیڈن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں اُن کا بچپن گذرا جہاں سعادت حسن منٹو پڑوس میں رہتے تھے۔ اُنھوں نے مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول میں تعلیم حاصل ک۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ ایف اے کے بعد برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا رخ کیا، جہاں فلم، تھیٹر اور ادب کو نئے زاویے سے سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ پانچ برس وہاں گزارے اور ٹیکسٹائل انجنئیرنگ کی تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹے۔
ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے۔ متعدد سفر کیے۔ آج کل اخبار جہاں میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناول کے حوالے سے بھی وہ ایک اہم نام ہے۔ انہوں نے بہاؤ، راکھ (ناول)، خس و خاشاک زمانے اور اے غزال شب جیسے شہرہ آفاق ناول تخلیق کیے۔ اس کے علاوہ آپ نے ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی وی نے جب پہلی مرتبہ 1988ء میں صبح کی نشریات صبح بخیر کے نام سے شروع کیں تو مستنصر حسین تارڑ نے ان نشریات کی کئی سال تک میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ ریڈیو پروگرام کی بھی میزبانی کی ۔

1957ء میں شوقِ آوارگی انھیں ماسکو، روس میں ہونے والے یوتھ فیسٹول لے گئی۔ (اُس سفر کی روداد 1959 میں ہفت روزہ قندیل میں شایع ہوئی۔)۔ اس سفر کی روداد پر ناولٹ “فاختہ” لکھی۔ یہ قلمی سفر کا باقاعدہ آغاز تھا۔
ٹی وی

پاکستان لوٹنے کے بعد جب ان کے اندر کا اداکار جاگا، تو انھوں نے پی ٹی وی کا رخ کیا۔ پہلی بار بہ طور اداکار ”پرانی باتیں“ نامی ڈرامے میں نظر آئے۔ ”آدھی رات کا سورج“ بہ طور مصنف پہلا ڈراما تھا، جو 74ءمیں نشر ہوا۔ آنے والے برسوں میں مختلف حیثیتوں سے ٹی وی سے منسلک رہے۔ جہاں کئی یادگار ڈرامے لکھے، وہیں سیکڑوں بار بہ طور اداکار کیمرے کا سامنا کیا۔ پاکستان میں صبح کی نشریات کو اوج بخشنے والے میزبانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بچوں کے چاچا جی کے طور پر معروف ہوئے۔ 2014ء میں ایکسپریس ٹی وی پر “سفر ہے شرط” کے نام سے سفر نامہ پروگرام بھی کر رہے ہیں ۔جیو ٹی وی پر شادی کے حوالے سے ایک پروگرام بھی کیا ۔
ڈرامے

ناول اور سفرناموں کے علاوہ مستنصر صاحب نے ڈرامے بھی تحریر کیے جن میں قابل ذکر یہ ہیں :

شہپر
ہزاروں راستے
پرندے
سورج کے ساتھ ساتھ
ایک حقیقت ایک افسانہ
کیلاش
فریب
1969ء میں وہ یورپی ممالک کی سیاحت پر روانہ ہوئے، واپسی پر ”نکلے تری تلاش میں“ کے نام سے سفرنامہ لکھا۔ یہ 71ءمیں شائع ہوا۔ قارئین اور ناقدین دونوں ہی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اِس کتاب کو ملنے والی پزیرائی کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اگلا سفر نامہ”اندلس میں اجنبی” تھا ۔ 42 برسوں میں 30 سفرنامے شائع ہوئے۔ 12 صرف پاکستان کے شمالی علاقوں کے بارے میں ہیں۔ پاکستان کی بلند ترین چوٹی “کے ٹو” پر ان کا سفرنامہ اس قدر مقبول ہوا کہ دو ہفتے میں پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ اِس علاقے سے اُن کے گہرے تعلق کی بنا پر وہاں کی ایک جھیل کو “تارڑ جھیل” کا نام دیا گیا۔ ان کے چند نمایاں سفرناموں کے نام یہ ہیں:

نکلے تری تلاش میں
اندلس میں اجنبی
خانہ بدوش
نانگا پربت
نیپال نگری
سفرشمال کے
سنولیک
کالاش

پتلی پیکنگ کی
شمشال بے مثال
سنہری اُلو کا شہر
کیلاش داستان
ماسکو کی سفید راتیں
یاک سرائے
نیو یارک کے سو رنگ
ہیلو ہالینڈ
الاسکا ہائی وے
لاہور سے یارقند
امریکا کے سورنگ
آسٹریلیا آوارگی
راکاپوشی نگر
اور سندھ بہتا رہا

اوائلِ عمر میں سوویت یونین کے سفرنامے “لنڈن سے ماسکو تک”سے انہوں نے سفر ناموں کی ابتدا کی۔ اس کے بعد “نکلے تیری تلاش میں” سے انہوں نے اردو ادب میں سفرنامہ لکھنے کے لیے ایک ایسا انداز متعارف کروایا جس کی اقتدا میں کئی سفرنامے لکھے گئے۔ انہوں نے سفرنامہ کو دلچسب، پُر مزاح، آسان اور سلیس تحریر سے ادب میں سفرناموں کے قارئین کی ایک کثیر تعداد پیدا کی۔ منظر نگاری کرتے ہوئے وہ الفاظ کی ایسی جادوئی بنت کرتے ہیں کے پڑھنے والا اس مقام و منظر سے بھرپور واقفیت حاصل کرلیتا ہے۔”نکلے تیری تلاش کے بعد انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا اور اندلس میں اجنبی، خانہ بدوش، کے ٹو کہانی،نانگا پربت، یاک سرائے، رتی گلی،سنو لیک، چترال داستان، ہنزہ داستان، شما ل کے سفرناموں سے ایسے سفرنامے تحریر کیے جن کو پڑھ کر کئی لوگ آوارہ گرد بن کر ان مقاموں کو دیکھنے ان جگہوں تک جا پہنچے۔”غار حرا میں ایک رات اور منہ ول کعبہ شریف” ان کے وہ سفر نامے ہیں جوحجاز مقدس کے بارے میں تحریر کیے گئے ہیں۔”نیو یارک کے سو رنگ،ماسکو کی سفید راتیں،پتلی پیکنگ کی،سنہری الو کا شہر بھی یادگارسفر نامے کہے جا سکتے ہیں ۔

ناول نگاری
سفرنامے کے میدان میں اپنا سکہ جما کر ناول نگاری کی جانب آ گئے۔ اولین ناول “پیار کا پہلا شہر” ہی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اب تک اِس کے پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ یوں تو ہر ناول مقبول ٹھہرا، البتہ راکھ اور “بہاؤ” کا معاملہ مختلف ہے۔ خصوصاً “بہاؤ” میں اُن کا فن اپنے اوج پر نظر آتا ہے، پڑھنے والوں نے خود کو حیرت کے دریا میں بہتا محسوس کرتا ہے۔ اِس ناول میں تارڑ صاحب نے تخیل کے زور پر ایک قدیم تہذیب میں نئی روح پھونک دی۔ “بہاؤ” وادی سندھ کے ایک شہر کا احوال ہے جو ایک قدیم دریا سرسوتی کے معدوم اور خشک ہوجانے کا بیان ہے، جس سے پوری تہذیب فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ ناول کی زبان انتہائی منفرد ہے اس میں سندھی، سنسکرت، براہوی اور سرائیکی زبان کے الفاظ جا بجا ملتے ہیں جس سے ناول کا طرزِ تحریر اور اسلوب منفرد ہو جاتا ہے۔ “بہاؤ” کی طرزِ تحریرو زبان کی مثال ملنا مشکل ہے، یہ ایک انوکھی تخلیق ہے بقول مصنف یہ ایک(Myth )متھ ہے۔ “بہاؤ” میں مستنصر حسین تارڑ ماہر بشریات Anthropoligist نظر آتے ہیں۔ محمد عثمان ہوچہ نے ان کےناول ‘بہاٶ کا تحقیقی و تنقیدی جاٸزہ ‘ لے کر ایم اے کی ڈگری ایجو کیشن یونی ورسٹی فیصل آباد کیمپس سے ٢٠١٥ میں حاصل کی ۔بہاٶ پر محمد عثمان ہوچہ کی تحقیق مستند اور حوالہ کا درجہ رکھتی ہے جسس کے بارے میں خود مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ‘محمد عثمان کے لیےمحبت کاایک بہاٶ ‘

راکھ کو 1999ء میں بہترین ناول کے زمرے میں وزیر اعظم ادبی ایوارڈ کا مستحق گردانا گیا، جس کا بنیادی موضوع سقوط ڈھاکا اور بعد کے برسوں میں کراچی میں جنم لینے والے حالات ہیں۔ ”قلعہ جنگی“ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے پس منظر میں لکھا گیا۔ اردو کے ساتھ پنجابی میں بھی ناول نگاری کا کام یاب تجربہ کیا۔ اس سفر میں افسانے بھی لکھے۔ ان کی شناخت کا ایک حوالہ کالم نگاری بھی ہے، جس میں ان کا اسلوب سب سے جداگانہ ہے۔ ’خس و خاشاک زمانے‘ ضخیم ناول ہے جس میں دو خاندانوں کی کئی نسلوں پر پھیلی داستان بیان کی گئی ہے۔

“اے غزال شب” سوویت یونین کے زوال کے بعد، پھیکے پڑچکے سرخ رنگ کی کہانی ہے جس میں لینن کے مجسمے پگھلا کر صلیبیں بنائی جا رہی ہیں اور کرداروں میں اُکتاہٹ بڑھ رہے ہے۔ اکتاہٹ، جو ان میں واپس اپنے وطن آنے کی خواہش جگاتی ہے، وہاں قیام کرنے کی غرض سے نہیں کہ اب وہاں اُن کا اپنا کوئی نہیں، فقط نامعلوم میں جھانکنے کے لیے۔ اور جب وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں، تو شوکی جھوٹا سامنے آتا ہے۔ ایک عجیب و غریب کردار جس کا تخیل گم شدہ چیذوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اور قا رئیں ناول کے چار کرداروں ہی کے زمرے میں آتے ہیں، اُس کی زبان سے سنتے ہیں۔ راکھ اور خس و خاشاک زمانے کی طرح یہ ناول بھی پاکستان کی مٹی سے جڑا ناول ہے جس کے کردار جاندار لیکن ماضی گزیدہ ہیں۔ خس و خاشاک زمانے بلا شبہ عظیم ناولوں کی فہرست میں شامل کرنے کے قابل ہے لیکن اے غزال شب بھی اگرچہ ضخامت میں قدرے مختصر ہے لیکن اسے بھی ایک ماسٹر پیس کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ جو قاری تارڑ کے اسلوب سے آشنا ہیں انہیں اس ناول میں ان کا فن اپنے عروج پر نظر آئے گا۔ تارڑ نے ماسکو میں اپنے قیام کے دوران میں جن حالات و واقعات کا مشاہدہ کیا اور ماسکو کی سفید راتیں میں تحریر کیا اس کا عکس اگر چہ جا بجا نظر آتا ہے لیکن اس ناول میں انداز بیاں، گہرائی و گیرائی کا جواب نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب آکے تارڑ کا فن اپنے کمال تک پہنچا ہے۔ اس ناول میں تارڑ کے کردار ماضی کے خوابوں کے اسیر اور زندگی کی لایعنیت سے تنگ آئے لوگ ہیں ۔

پیار کا پہلا شہر
بہاؤ
خس و خاشاک زمانے
اے غزال شب
خس و خاشاک زمانے
قربت مرگ میں محبت
بے عزتی خراب
ڈاکیا اور جولاہا
راکھ
قلعہ جنگ
بشکریہ وکی پیڈیا