زبورِ عجم اقبال

چو موج مست خودی باش و سر بہ طوفان کش
ترا کہ گفت کہ بنشیں و پا بہ داماں کش

موج کی مانند مست خودی رہ اور طوفان کے اندر سے سر اٹھا
تجھے کس نے کہا ہے کہ تو بیٹھ رہ اور جد و جہد چھوڑ دے۔

بہ قصدِ صیدِ پلنگ از چمن سرا برخیز
بہ کوہ رخت گشا خیمہ در بیاباں کش

چیتے کے شکار کے لیے چمن سے نکل کھڑا ہو پہاڑ پر پہنچ اور جنگل میں ڈیرہ ڈال۔

بہ مہر و ماہ کمندِ گلو فشار انداز
ستارہ را ز فلک گیر و در گریباں کش

سورج اور چاند پر مضبوط کمند ڈال
آسمان کے ستارے توڑ اور اپنے گریبان میں ڈال لے۔

گرفتم ایں کہ شرابِ خودی بسے تلخ است
بہ دردِ خویش نگر زہرِ ما بہ درماں کش

مانا کہ شراب خودی بہت تلخ ہے، مگر اپنی بیماری دیکھ اور اس کے علاج کے لیے ہمارا زہر پی لے۔

علامہ اقبال