غلام عباس (افسانہ نگار)وفات 2 نومبر

غلام عباس 17 نومبر 1909ء میں امر تسر (چند محققین کی رائے میں 1907) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور کے دیال سنگھ ہائی اسکول سے حاصل کی ۔ لکھنے لکھانے کا شوق فطرت میں داخل تھا۔ ساتویں جماعت میں ایک کہانی “بکری” لکھی۔ کہانی استاد محترم مولوی لطیف علی کو دکھائی۔ جنھوں نے حوصلہ افزائی فرمائی تو یہ شوق اور بڑھا۔ نویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے اس قابل ہو گئے کہ انگریزی نظموں اور کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کر سکیں۔
ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ رسالہ ہزار داستان کے مدیر حکیم احمد شجاع پاشا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہوں نے متعدد عالمی ادب کی اصناف کو اردو میں قلب میں ڈھالا۔ فی ہفتہ 5 روپے کے عوض ٹالسٹائی کے ناول The Long Exile کا اردو ترجمہ جلاوطن کے عنوان سے کیا۔ حکیم یوسف حسن کے رسالہ تازیانہ میں بھی تراجم اور کہانیاں لکھیں۔ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور ادبی رسالوں میں ادب کے جوہر دکھاتے رہے۔ چند رسالوں کے نام جن کے لیے غلام عباس نے لکھا:

رسالہ نیرنگ خیال
رسالہ ہمایوں
رسالہ سہیلی
رسالہ امرتسر

چراغ حسن حسرت کے رسالہ شیرازہ میں اپنا مشہور افسانہ “جزیرہ سخنوراں” سال 1936 سے 1937 میں شائع کروایا۔ یہ افسانہ مشہور فرانسیسی طنز نگار “آندرے مورووا” کی تصنیف “ووژا اوپے ای دیزارتی کول” سے متاثر ہو کر لکھا۔
مدیر ادبی رسائل

1928ء سے 1937ء تک بچوں کے رسالوں (پھول) اور (تہذیب نسواں) کے ایڈیٹر رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہے۔ آل انڈیا کے اردو ہندی رسالے (آواز) اور (سارنگ) کے مدیر بھی رہے۔ اسی دور میں کئی شاہکار افسانے بھی تخلیق کیے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آ گئے اور ریڈیو سے وابستہ رہے اور اس کے رسالے آہنگ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
ملازمت

ملازمت کے دوران افسانہ نگاری کی طرف توجہ کی اور چند کامیاب افسانے لکھ کر اردو افسانہ نگاری میں نمایاں حیثیت حاصل کر لی۔
اردو ادب میں مقام

بحثیت افسانہ نگار غلام عباس کا نام اردو کے افسانہ نگاروں میں ایک منفرد اور اعلیٰ مقام کا حامل ہے، گو کہ انہوں نے بہت کم افسانے لکھے لیکن جتنے لکھے بہت خوب لکھے۔ غلام عباس کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔
تصنیفات
افسانوی مجموعے

آنندی، 1948ء
جاڑے کی چاندنی، 1960ء<
کن رس، 1969ء
رینگنے والے، 1980ء

ناولٹ

گوندنی والا تکیہ، 1936ء
جزیرہ سخن وراں، 1941ء
دھنک، 1969ء

بچوں کا ادب

الحمرا کے افسانے، 1931ء
چاند تارا (نظمیں)،
ننھی کی گڑیا، 1936ء

تراجم

جلا وطن، از لیو ٹالسٹائی
بے چارہ سپاہی
صدر ایوب کی کتاب فرینڈ ناٹ ماسٹرز کا ترجمہ، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی کے نام سے

دیگن

چار چھوٹے ناٹک، 1936ء

وفات
غلام عباس 2 نومبر 1982ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں