وہ خواب تھا کہ حقیقت تھا یا تماشا تھا *سلیم احمد

وہ خواب تھا کہ حقیقت تھا یا تماشا تھا
تمام عُمر اِسی مسئلے پہ سوچا تھا

وہ گُم ہُوا تو مضامین ہو گئے بے رَبط
وہی تو تھا جو مِرا مَرکزی حَوالہ تھا

وہ صِرف اپنے حدُود و قیُود کا نِکلا
اُس ایک شخص کو کیا کیا سمجھ کے چاہا تھا

مَکاں بَنا کے اسے بند کر دیا ورنہ
یہ راستہ کِسی منزل کو جانے والا تھا

میں تہ نشیں تھا کہ باقی تھی زندگی مُجھ میں
جو مَر گئے تھے اُنہیں موج نے اُچھالا تھا

اُسے تو جانا کِسی اور سمت تھا لیکن
مُجھے وہ چھوڑنے میرے مَکاں تک آیا تھا

پھر اِس کے بعد مِری گُمرہی کا قصّہ ہے
میں اُس مقام پہ پہنچا جہاں دوراہا تھا

*سلیم احمد*