غزل نوح ناروی

شکوؤں پہ ستم، آہوں پہ جفا، سو بار ہوئی، سو بار ہوا
ہر بات مجھے، ہر کام مجھے، دشوار ہوئی، دشوار ہوا

ساقی کی نشیلی آنکھوں سے، ساری دنیا سارا عالم
بدمست ہوئی، بدمست ہوا، سرشار ہوئی، سرشار ہوا

ہے نام دلِ مضطر جس کا، کہتے ہیں جسے سب جانِ حزیں
مرنے کے لیے، مٹنے کے لیے، تیار ہوئی، تیار ہوا

اظہارِ محبت بھی ہے غضب، اظہارِ محبت کون کرے
حجت ان سے، جھگڑا مجھ سے، ہر بار ہوئی، ہر بار ہوا

دنیا میں بہار اب آ پہنچی، مے خانے کا در بھی کھل جائے
ایک ایک گلی، ایک ایک مکاں، گل زار ہوئی، گل زار ہوا

کیوں رحم وہ ظالم کرنے لگا، کیوں موت یہاں تک آنے لگی
الفت سے مری، صورت سے مری، بیزار ہوئی، بیزار ہوا

حسرت اپنی، ارماں اپنا، آزار اپنا، تکلیف اپنی
ہم درد بنی، ہم درد بنا، غم خوار ہوئی، غم خوار ہوا

ملنے سے تنفر تھا جس کو، آغوش میں اب وہ سوتا ہے
تقدیر مری، اقبال مرا، بیدار ہوئی، بیدار ہوا

مقتل میں جفائیں ڈھانے پر، مقتل میں جفائیں سہنے پر
قاتل کی نظر، بسمل کا جگر، تیار ہوئی تیار ہوا

اے نوح یہ کیا سوجھی تم کو، طوفان اٹھایا کیوں تم نے
ساری دنیا، سارا عالم، بیزار ہوئی، بیزار ہوا

(نوح ناروی)