جب وہ مرا تو زندہ تھا“احمد حاطب صدیقی

آج جب سلیم بھائی کی یادیں ذہنِ پریشاں کے نہاں خانوں میں بیٹھ کر بٹورنے کی کوشش کی تو پہلا سوال یہی اُٹھا کہ جب اُنھیں پہلے پہل دیکھا تھا تو کہاں دیکھا تھا؟ ہاں یاد آیا۔ سلیم بھائی کو پہلی بار ریڈیو پاکستان کراچی کے احاطے میں اُس کے صدر دروازے سے داخل ہوتے دیکھا تھا۔ ہم ریڈیو اسٹیشن کی کینٹین کے باہر برگد کے پیڑ تلے قمر جمیل کی جمائی ہوئی محفل میں ادیبوں، شاعروں، ڈراما نگاروں اور براڈ کاسٹروں کی ٹولی کے ساتھ براجمان تھے۔ ایک صاحب گیٹ سے آتے ہوئے نظر آئے۔ بغل میں ایک چھوٹا سا دستی بیگ دبا ہوا۔ کریم کلر کی شیروانی، جس کے سب بٹن اوپرسے تلے تک کھلے ہوئے۔ بال بکھرے ہوئے۔ منہ سُجا ہوا۔ آنکھیں مُندی ہوئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بستر سے ابھی ابھی اُٹھ کر منہ دھوئے بغیر سیدھے یہیں چلے آرہے ہوں۔ مگر جب معلوم ہوا کہ یہی سلیم احمد ہیں تب ہم پر اس شعر کی حقیقت کھلی کہ:

خاکسارانِ جہاں را بہ حقارت مَنگر
تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد

سلیم احمد مرحوم کو ہم سب ہی ’سلیم بھائی‘ کہتے تھے۔ سو، اس مضمون میں بھی ہم یہی کہیں گے۔ جن لوگوں کو ناگوار گزرے وہ ہرجگہ ’سلیم بھائی‘ کی جگہ ’ممتاز شاعر، ادیب، نقاد، ڈراما نگار اور دانشورجناب سلیم احمد‘ پڑھ لیں۔ اوپر جو ہم نے فارسی کا ایک شعر لکھا ہے، اسی مفہوم کا ایک شعر خود سلیم بھائی کی ایک غزل میں بھی موجود ہے، جو اُنھی پر چسپاں ہوتا ہے۔ مگر اس شعرکے آگے پیچھے کے چند اشعار بھی سن لیجیے اور اندازہ کیجیے کہ بھلا وہ کون سا شعر ہوسکتا ہے، جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں۔ سلیم بھائی کا کہنا ہے :

بیٹھ جاتے ہیں کہ آدابِ سفر جانتے ہیں
ورنہ منزل کو بھی ہم راہ گزر جانتے ہیں
شرطِ ویرانی سے واقف ہی نہیں شہر کے لوگ
در و دیوار بنا کر اسے گھر جانتے ہیں
نا مرادانِ محبت کو حقارت سے نہ دیکھ
یہ بڑے لوگ ہیں، جینے کا ہنر جانتے ہیں
ہر نفس معرکۂ سود و زیاں جاری ہے
دستِ خالی کو سلیمؔ اپنی سپر جانتے ہیں

سلیم بھائی سے زیادہ تر ملاقاتیں ریڈیو اسٹیشن ہی پر ہوتی تھیں۔ اکثر ضمیر علی کے کمرے میں، جو ’بزم طلبہ‘ کے پروڈیوسر تھے اور اُس زمانے میں ہم بزم طلبہ کے لیے مزاحیہ خاکے لکھا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک نشست کا حال آپ کو قمر جمیل کے تذکرے میں ملے گا۔ ایک روز ہم ضمیر علی سے ملنے گئے تو کمرہ خالی تھا۔ کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ضمیر علی اوراُن کی معاون پروڈیوسر خواجہ بیگم دونوں اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ ہم وہیں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں سلیم بھائی بھی آگئے۔ چائے منگوائی گئی اور باتیں شروع ہوگئیں۔ باتوں باتوں میں اُن کی ایک غزل کی بات چھڑ گئی۔ ہم نے فرمائش کی کہ فلاں شعر ہماری ڈائری پر اپنے ہاتھ سے لکھ دیجیے۔ اُنھوں نے پورا صفحہ بھردیا:

سلیم بھائی اپنے بستر پر نیم دراز، لیٹے یا بیٹھے سگریٹ پیتے ہوئے خلاؤں میں گھورتے رہتے اور کچھ سوچتے رہتے۔ باقی لوگ یا تو آپس میں بحث و مباحثہ کر رہے ہوتے یا سلیم بھائی کے آگے ’سوال اُٹھا‘ رہے ہوتے۔ خود ’سوال اُٹھانا‘ اور دوسروں سے ’سوال اُٹھوانا‘ اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔
وہ ہاتھ ہاتھ میں آیا ہے آدھی رات کے بعد
دیا دیے سے جلایا ہے آدھی رات کے بعد
میں آدھی رات تو تیرہ شبی میں کاٹ چکا
چراغ کس نے جلایا ہے آدھی رات کے بعد
مجھے خبر ہے، یہ سب سو رہے ہیں محفل میں
فسانہ میں نے سنایا ہے آدھی رات کے بعد
میں جاگ اُٹھا ہوں یکایک کسی کی دستک سے
یہ کون ہے کہ جو آیا ہے آدھی رات کے بعد
مجھے خبر بھی نہیں ہے کہ شب نوردوں نے
مجھے کہاں سے اُٹھایا ہے آدھی رات کے بعد
ہوا تھا شامِ خیال و ملال سے آغاز
وہی دیا، وہی سایا ہے آدھی رات کے بعد
کبھی جو دن کو بھی ملتا نہیں اکیلے میں
اُسی نے مجھ کو جگایا ہے آدھی رات کے بعد

سن ستر کی دہائی سے لے کر سن اسی کی دہائی میں اُن کی وفات (یکم ستمبر ۱۹۸۳ء) تک انچولی سوسائٹی میں واقع اُن کا گھر کراچی کا ’پاک ٹی ہاؤس‘ بنا رہا۔ شہر کا شاید ہی کوئی ادیب و شاعر ایسا ہوگا جو وہاں حاضری نہ دیتا ہو۔احمد ہمیش، جمال پانی پتی، سجاد میر، طاہر مسعود، فراست رضوی، احمد فواد اور ایسے ہی بہت سے لوگ جن کے اِس وقت نام بھی یاد نہیں آرہے ہیں، یہ سب لوگ اُن نشستوں کے مستقل شریک تھے۔ سلیم بھائی اپنے بستر پر نیم دراز، لیٹے یا بیٹھے سگریٹ پیتے ہوئے خلاؤں میں گھورتے رہتے اور کچھ سوچتے رہتے۔ باقی لوگ یا تو آپس میں بحث و مباحثہ کر رہے ہوتے یا سلیم بھائی کے آگے ’سوال اُٹھا‘ رہے ہوتے۔ خود ’سوال اُٹھانا‘ اور دوسروں سے ’سوال اُٹھوانا‘ اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس مرحلے پر اُنھی کا ایک سوالیہ شعر یاد آگیا:

ہے خطِ واصل؟ کہ حدِ فاصل؟ کہ قوس کے قوس ہے مقابل؟
سلیمؔ عاجز ہے فہمِ کامل، کہاں بشر ہے؟ کہاں خدا ہے؟

سلیم بھائی نے اپنے اُستاد محمد حسن عسکری اور انتظار حسین کے ساتھ میرٹھ سے ہجرت کی تھی۔ ویسے اُن کی پیدایش بارہ بنکی میں ہوئی تھی۔ اُن کی ہجرت کا احوال جاننا ہو تو انتظار حسین کی کتاب ’چراغوں کا دھواں‘ دیکھ لیجیے۔ بڑے دلچسپ اور قہقہہ آور واقعات ملیں گے۔ خود سلیم بھائی کی شخصیت پر بھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ سو یہاں اُن کی سوانح عمری سنانا تو مقصود نہیں ہے۔ بس اُن کی متفرق یادیں ہیں، جن کو تازہ کرکے آج یہ اندازہ لگانا ہے کہ وہ کس کس طرح اپنے زمانے کے نوجوان لکھنے والوں پر اثر انداز ہوئے۔ اُن سے بہت سے لوگوں نے بہت کچھ سیکھا۔ مگر کس نے اُن کو سمجھا اور کس نے نہیں سمجھا؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ تاہم وہ خودتو یہی کہتے تھے کہ:

کسی نے بھی مجھے سمجھا نہیں ہے
یہ رونا ہے، کوئی دعویٰ نہیں ہے

جب زمانہ وہ آن لگا کہ پاکستان کی نظریاتی اساس پر ضرب پڑنے لگی۔ سوشل اِزم اور اسلامی نظام کے مباحث دھواں دھار ہوگئے تو اس جنگ میں سلیم بھائی بھی کھل کر برسر پیکار ہوگئے۔ 1970ء کے انتخابات سے قبل اُنھوں نے بڑے جوش و خروش سے جماعت اسلامی کاساتھ دیا۔ ’جسارت‘ میں وہ اپنے نام ہی سے نہیں، فرضی اور قلمی ناموں سے بھی لکھتے رہے۔ مگر جب انتخابات کے نتائج جماعت اسلامی کے موافقین تو کیا اُس کے مخالفین کی توقعات سے بھی بالکل برعکس و بالعکس رُو نما ہوئے تو سلیم بھائی کو بھی ویسا ہی دھچکا پہنچا جیسا تمام ’اسلام پسندوں‘ پہنچا تھا۔ وہ حساس آدمی تھے۔ یہ صدمہ اُن کے لیے بہت بڑا تھا۔ مگر اس صدمے سے اُن کی معرکہ آرا نظم ’مشرق‘ نے جنم لیا۔

بھٹو صاحب کا دور جو گزرا سو گزرا۔ لیکن جب بھٹو صاحب کے دور کا خاتمہ ہوا تو سلیم بھائی پھر سرگرمِ عمل ہوگئے۔ حتیٰ کہ وہ ’مشیر‘ کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ ہمیں تو اُن کے اِس دورِ ثانی کی نثر ونظم نے زیادہ متاثر کیا۔ اپنی کتاب ’’جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ لکھ کر تہذیب مغرب سے محاذ آرائی کے لیے محمد حسن عسکری نے ہمیں پہلے ہی ہتھیار بند کر دیا تھا۔ آگے کاباقی کام سلیم احمد نے کیا۔انھوں نے ’’روبرو‘‘ کے مستقل عنوان سے ’جسارت‘ میں کالم لکھنا شروع کیا اور مغربی نظریات کی خوب خوب خبر لی۔ جمعہ 22مئی 1981ء کے جسارت میں ادارتی صفحہ پر اُن کے کالم ’روبرو‘ کی سرخی تھی:

’’مغربی تہذیب سے جنگ کیوں؟ … ہمارا تعلق صرف حق و باطل کی تفہیم سے ہونا چاہیے‘‘۔

انکا یہی کالم (یعنی ’رُوبرو‘) بعد میں اُن کے داماد عزیزم شاہنواز فاروقی لکھنے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوپر کی سرخی میں سلیم احمد نے جو بات کہی ہے، جب وہی بات ہم نے اپنے ایک کالم میں لکھی تو شاہنواز مغرب سے ’تہذیبی تصادُم‘ چھوڑ کر خود ہم سے جنگ پر اُتر آئے اور پوری کتاب لکھ ماری۔ یہ بھی ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ مگر ذرا سلیم بھائی کے محولہ بالا کالم کا آخری پیرا ملاحظہ فرمائیے:

’’ہم واضح طور پر بیان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمیں مشرق یا مغرب سے کوئی محبت یا مخاصمت نہیں ہے۔نہ جدید اور قدیم سے ہمارا کوئی ایسا تعلق ہے کہ ہم ایک کے دشمن اور دوسرے کے دوست ہوں۔ہمارا تعلق صرف حق اور باطل کی تفہیم سے ہے اور اس کے سوا کوئی اور معیار ہمارے لیے فیصلہ کن نہیں ہے۔ہمارا پورا یقین ہے کہ جدید مغربی تہذیب ایک باطل تہذیب ہے جو تمام روایتی دینی، مذہبی تہذیبوں کی دشمن اور ان کی قاتل ہے اور یہی اس سے ہماری جنگ کی بنیاد ہے‘‘۔ (بحوالہ بالا)

ہم نے کیا؟ ایک عالَم کے عالَم نے سلیم بھائی سے خوب سیکھا۔ لیکن وہ اپنے خردوں سے یعنی ہم جیسے طالب علموں سے بھی بہت کچھ قبول کر لیتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پر ’ڈرامے‘ کے موضوع پر اختلافی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ ہم کہتے تھے کہ ڈرامے کی صنف کو مسلمانوں نے کبھی لایقِ توجہ نہیں جانا۔ کیوں کہ مسلمانوں کے خیال میں ناٹک کھیلنا، بھیس بدلنا، بہروپ بھرنا اور سوانگ رچانا اُن کے شایان شان نہیں۔ یہ خود کو ’غیر خود‘ کا قائم مقام بنا کر پیش کرنے کے مترادف ہے، جو ’خودی‘ کے خلاف ہے۔ اور مسلمان عورت کے لیے تو یہ نہایت ہی حقیر فعل ہے۔ مسلمانوںنے ڈرامے کو انتہائی ذلیل حالت میں یونانیوں اور آرمینیوں کی سفری ٹولیوں کے ہاتھ میں چھوڑ دیا تھا۔ سلیم بھائی خود ’ڈراما نگار‘ تھے۔انھوں نے ہمارے سامنے کبھی ہمارے خیالات کی تائید نہیں کی۔ بس ہمارے خیالات توجہ سے سنتے اورچپ ہو رہتے۔

سلیم بھائی مجسم شعر و ادب تھے۔ ادب اُن کا طرزِ حیات تھا۔ وہ ہر وقت خیالوں میں گم رہا کرتے تھے۔دراصل وہ سرتاپا خیال ہی خیال تھے۔
مگر ایک بار ہم نے ایک طویل مضمون لکھا۔ یہ مضمون اُن کی وفات سے تین ہفتے قبل 6اگست 1983ء کو روزنامہ ’جسارت‘ میں ’نٹ وید‘ کے عنوان سے شایع ہوا۔ اس مضمون میں انھی خیالات کا اظہار حوالہ جات کے ساتھ کیا گیا تھا۔ صفحہ کے نگراں طاہر مسعود ہمارے ان خیالات سے متفق نہ تھے۔ بہرحال بحث و تمحیص کے بعد اُنھوں نے یہ مضمون مذکورہ بالا تاریخ کو شایع کردیا۔ شاید وہ ہمارے خیالات کے خلاف دلائل لینے کو سلیم بھائی کے پاس گئے ہوں۔ یا شاید برسبیل تذکرہ اس موضوع پر اُن سے گفتگو ہوگئی ہو۔ مگر سلیم بھائی کے انتقال کے بعد طاہر مسعود کا ایک مضمون ’جسارت‘ کی 10 ستمبر 1983ء کی اشاعت میں ’سلیم احمد سے آخری گفتگو‘ پر مشتمل شایع ہوا۔ اس مضمون میں طاہر مسعود نے نہایت دیانت داری سے بیان کیا:

’’ان کا خیال تھا کہ فلم اور ڈراما لکھنا کوئی سنجیدہ تخلیقی عمل ہے ہی نہیں۔خصوصاً ہمارے معاشرے کی مخصوص اخلاقی اقداران چیزوں کی اجازت نہیں دیتیں‘‘۔آگے چل کر طاہر مسعود نے لکھا:’’ایک مرتبہ میرے استفسار کے جواب میں انھوں نے کہاکہ مسلمانوں کی تاریخ میں ڈرامے کی روایت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ یونانیوں اور ہندوؤں کی چیز ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ڈراما یا موسیقی اسلام میں حرام ہے یا حلال؟ میں تو اس معاملے کو اس طرح سے دیکھتا ہی نہیں۔آپ یہ دیکھیے کہ جن تہذیبوںنے موسیقی یا ڈرامے کو جنم دیاخود ان کی عظیم ترین کتابوں میںان کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ ہندوؤں کی الہامی کتاب میں لکھا ہے کہ روحانی زوال کی انتہا پر برہما نے موسیقی کو جنم دیا۔ انھوں نے اسی طرح متعدد مثالیں دیتے ہوئے کہاکہ اسلام کی بات تو بہت بعد میں آتی ہے۔ موسیقی اور ڈرامے کے علمبرداروں کے ہاں ہی ان کے خلاف شواہد ملتے ہیں۔ اسی گفتگو کے دوران اسد محمد خان بھی آگئے۔ میں نے سلیم احمد صاحب سے پوچھا کہ ایکٹنگ کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چوں کہ ایک اداکار کو مختلف کرداروں کا سوانگ بھرنا پڑتا ہے اس لیے بحیثیت انسان کے اس کا جوہر فطری متاثر ہوتا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ اس کی اپنے طور پر وضاحت کرنا پسند کریں گے یا اس دعوے کے سلسلے میں کوئی دلیل دی جاسکتی ہے؟ وہ کہنے لگے اصل میں، مَیں نے اب تک کی زندگی میں اتنے اداکاروں کودیکھا ہے اور ان کا مشاہدہ کیا ہے کہ مجھے کوئی دلیل وضع کرنے یا کسی دلیل کو کلیے کے طور پرترتیب دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اداکاری اداکار کے کردار کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کی شخصیت کا جوہر اصلی متاثر ہوتاہے‘‘۔ (روزنامہ ’جسارت‘ کراچی۔10ستمبر 1983ء)

سلیم احمد کی ایک یادگار تحریر: اسلامی زندگی بمعہ چھہ رنگین ناچوں کے: سلیم احمد
ہم تو خیر سلیم بھائی کی اُس شاعری کے بھی قتیل تھے جو شگفتہ اور مزاحیہ انداز لیے ہوتی تھی:

عشق اور اتنا مہذب؟ چھوڑ کر دیوانہ پن
بند اوپر سے تلے تک شیروانی کے بٹن
خوشنما لفظوں کی رشوت دے کے راضی کیجیے
روح کی توہین پر آمادہ رہتا ہے بدن

یا پھر سہل ممتنع کی مثال یہ غزل:

یہ بھی ہونا تھا اے دلِ ناکام؟
عشق اور تجھ پہ دردِ ہجر حرام؟
پھر وہی زلف و خال کے قصے
پھر وہی داستانِ دانہ و دام
پھر اُسی سے اُمیدِ دلداری؟
پھر وہی لغزشیں، وہی انعام
اُن کو چاہا تو شاعری بھی کی
آم کے آم، گٹھلیوں کے دام

مگر اُن کے آخری دور کی شاعری ہی ہمارے دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔بالخصوص جب کسی کو یقین نہ تھا کہ بھٹو کا دورِستم کبھی ختم بھی ہوسکتا ہے،پر جب لاہور ہائی کورٹ سے بھٹو کو سزا سنائی گئی تب سلیم بھائی نے کہا:

یہ خاک مرے رزق کی ضامن ہے، امیں ہے
جس خاک کا میں رزق ہوں وہ اور کہیں ہے
تو منکرِ قانونِ مکافاتِ عمل تھا
لے دیکھ ترا عرصۂ محشر بھی یہیں ہے
یہ لمحۂ موجود ہی وہ روزِ جزا ہے
جس پر تجھے کس درجہ یقیں تھا کہ نہیں ہے

پھر اُن کی وہ غزل:

دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے
اس طرح رہیے کہ جزوِ زندگی بن جائیے
جس طرح خالی انگوٹھی کو نگینہ چاہیے
عالمِ امکاں میں اِک ایسی کمی بن جائیے
اِک پتنگے نے یہ مجھ سے رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے

اور یہ شعر تو اب ضرب المثل بن چکا ہے:

دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اُتریے آدمی بن جائیے

ایک اور غزل کے چند اشعار:

دلوں میں درد بُنتا، آنکھ میں گوہر بناتا ہوں
جنھیں مائیں پہنتی ہیں، میں وہ زیور بناتا ہوں
غنیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتاہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
یہ سوچا ہے کہ اب خانہ بدوشی کر کے دیکھوں گا
کوئی آفت ہی آتی ہے اگر میں گھر بناتا ہوں

سلیم بھائی مجسم شعر و ادب تھے۔ ادب اُن کا طرزِ حیات تھا۔ وہ ہر وقت خیالوں میں گم رہا کرتے تھے۔دراصل وہ سرتاپا خیال ہی خیال تھے۔ اُن کے آخری دنوں کا ایک قطعہ ہے:

روشنی ہے چراغ میں زندہ
مے کشی ہے ایاغ میں زندہ
جسم و جاں کی اِکائی ٹوٹ گئی
میں فقط ہوں دماغ میں زندہ

سچ تو یہی ہے کہ وہ آخری وقت تک ’زندہ‘ تھے۔ اُن کے انتقال کے بعد اُن کے تکیے کے نیچے سے تازہ لکھا ہوا کالم برآمد ہوا تھا۔ آرٹس کونسل کراچی میں تعزیتی تقریب منعقد ہوئی تو اُن کے اُستاد پروفیسر کرار حسین نے جوبات کہی تھی اُسی پر ہم بھی اپنی بات ختم کرتے ہیں:

’’اورآخری بات یہ کہ جب وہ مرا تو زندہ تھا‘‘۔