اچھے وقت تحریر محمد اظہر حفیظ

میرے والدین اچھے وقت پر اگلے جہاں کے سفر پر چلے گئے۔ ورنہ جو زندگی میں نے گزاری شاید وہ برداشت نہ کرسکتے۔ سنا ہے لوگوں کے والدین ان کے خوابوں میں آتے ہیں۔ شکر ہے میرے والدین میرے خواب میں نہیں آتے ورنہ ان کے گلے لگ کر شاید میں رو پڑتا اور وہ اگلے جہان میں بھی دکھی ہوجاتے۔ مجھے ہر دکھ اور سکھ میں اپنے والدین یاد آتے ہیں۔ اور میں ان کو یاد کرکے رنجیدہ اور آبدیدہ ہوجاتا ہوں۔ ابا جی ہوتے تو کہتے نہ میرا صاحب پتر انج نہیں کردے چل شاباش میرا پتر اٹھ منہ ہتھ دھو تے فر عثمانیہ ریسٹورنٹ چلیے میں اپنے صاحب نوں بکرے دی روسٹ. ران کھلا کے لیانا واں۔ تے امی جی حیات ہوندے تے کہندے نہ میرا لعل جوان بندے روندے چنگے نہیں لگدے۔ ہن کینوں کی دساں نہ جوانی رہی تے نہ ہی عثمانیہ دی ران روسٹ رہی۔ تے سچی گل اے ہن او رونے وی نہیں رہے۔ پہلے کدی کدھار روئی دا سی ماں باپ دا ساتھ ہی بڑا ہوندا اے پر ہن گل گل تے رونا نکل جاندا اے۔ سنیا اے پہلے وقت اچھا سی ہن پہلے ورگا نہیں رھیا۔
پہلے ہر شے چنگی لگدی سی ہن تے سواد وی او والے نہیں رہے۔
پہلے ہلکا جیا سر یا پیٹ دکھدا تے ہائے امی جی ، ہائے امی جی کی ہویا میرے لعل نوں امی جی صدقے واری جاندے سن۔ پچھلے سال جگر ٹرانسپلانٹ ہوا کافی بڑی سرجری تھی۔ کئی گھنٹے آپریشن چلتا رہا ۔ شکر الحمدللہ سب اچھا ہوگیا۔ جب ہوش آیا سب اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے تہانوں پتہ وی اے اسی سارے کننے پریشان ساں۔ کسطرح مشکل سے وقت گزرا۔ میں نے مسکرا کر کہا مجھے کیسے پتہ چلتا میں تو بے ہوش تھا اور پھر میں رونے لگ گیا۔ کہ مجھے زندگی میں کبھی کسی کی پریشانی سمجھ ہی نہیں آئی۔ آپریشن کے کچھ ماہ بعد میرے آپریشن والی جگہ پر ہرنیا بن گئیں اور اب ایک اور آپریشن کی تیاری ہے غالباً چار سے پانچ گھنٹے کی سرجری ہے۔ مجھے سرجری کی کوئی فکر نہیں ہے بس تکلیف اس بات کی ہے کہ میرے سے وابستہ لوگوں کو بہت تکلیف ہوگی پریشانی ہوگی۔ میں ایک بہادر شخص تھا شاید دنیا یہی سمجھتی ہے، مجھے احساس ہوتا ہے کہ شاید اب بھی ہوں ۔ میرے اللہ نے مجھے ہمیشہ ہمت دی۔ ٹیم ساری وہی پرانی ہے جو پچھلی سرجری میں ساتھ تھی پر اس دفعہ ایک ہی سرجری ہے وہ میری ہے پہلے میری بیٹی بھی ساتھ تھی ۔ شکر الحمدللہ وہ اب صحت مند ہے۔ میرا جگر بھی الحمدللہ بہترین ہے پر ہرنیا کی وجہ سے مجھے اٹھنے ، بیٹھنے، لیٹنے اور چلنے میں مشکل ہوتی ہے۔ دل مطمئن ہے کہ میرے والدین مناسب وقت پر پردہ فرما گئے ورنہ بہت پریشان ہوتے۔ اور میں بھی انکو دیکھ کر کمزور پڑ جاتا۔ میں نے ان دردوں کے سفر میں یہ دیکھا ہے کہ والدین کی موجودگی میں انجیکشن لگنے کا احساس بھی زیادہ ہوتا ہے اور ان کے بغیر بڑی سے بڑی سرجری بھی عام محسوس ہوتی ہے۔ پہلے تو کئی کئی دن انجیکشن کی درد نہیں جاتی تھی اور اب توجگر ٹرانسپلانٹ کے کچھ دن بعد میں چلنا پھرنا شروع ہوگیا تھا۔میری بیٹی کچھ عرصے بعد چلنا پھرنا شروع ہوئی کیونکہ اس کی کمزوری اس کے والدین ساتھ تھے۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ جب والدین ساتھ ہوں تو آپ کمزور ہوتے ہیں یا مضبوط۔
اچھے وقت کونسے ہیں جب آپ بادشاہ کی اولاد ہوتے ہیں یا پھر خود بادشاہ ہوتے ہیں ۔ بادشاہ کی اولاد ہونا خوش نصیبی ہے جو والد کی زندگی میں ہر انسان سمجھتا ہے۔ پر جب خود بادشاہ بنتا ہے تو بادشاہت اور اس کی مجبوریوں کی سمجھ آتی ہے۔ میرے ایک دوست نے ایک دفعہ کہا تھا سر جی قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے،باہر والے تو قیاس آرائیاں ہی کرتے ہیں ۔ مجھے یہ بات زندگی میں بار ہا سمجھ آئی۔
دوسری سرجری کا پروسیس شروع ہوگیا ہے۔ ٹیسٹ آج مکمل ہوگئے ہیں اب اگلے ہفتے لاہور پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ میں چیک اپ ہوگا اور سرجری کی تاریخ مل جائے گی انشاءاللہ۔ دعاوں کی درخواست ہے۔ امید ہے اچھے وقت لوٹ آئیں گے۔ اور میں بھی  انشاء الله