اظہر حفیظ : تم یہ کیسے لکھتے ہو ؟

ایک دوکاندار کوشش کرتا ہے کہ وہ آپ کو وہ شے بیچے جو وہ فروخت کرنا چاہتا ہے اور آپ خوش ہو کر لے لیتے ہیں کہ ہاں یہی تو میں خریدنا چاہتا تھا جبکہ آپ وہ نہیں خریدتے جو خریدنا چاہتے ہیں بلکہ وہ خریدتے ہیں جو دکاندار بیچنا چاہتا ہے. ایک فوٹوگرافر بھی یہی کام کرتا ہے جو آپ کو وہ دکھاتا ہے جو وہ دکھانا چاہتا ہے. اس لیے کہ ہم ایسی آنکھوں والے ہیں جن کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں.
کہا جاتا ہے کہ تصویر کیمرہ نہیں بناتا کیمرہ مین بناتا ہے .مشین کے پیچھے جو آدمی ہوتا ہے وہ مشین سے زیادہ اہم ہوتا ہے .کیمرے کا بٹن تو طوظا بھی دبا سکتا ہے.
ایک کیمرہ مین کیا ، کیوں اور کہاں کا سوچتا ہے اور پھر تصویر بنا لیتا ہے. اسے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تصویر جو اس کے ذہن میں ہے وہ اس تصویر کے اندر ہے . جی اصل تصویر،تصویر کے اندر ہوتی ہے. جیسے مجسمہ پتھر کے اندر ہوتا ہے اور اس کے ارد گرد جو زائد پتھر ہوتے ہے ان کو مجسمہ ساز ہٹا دیتا ہے اور مجسمہ باہر نکل آتا ہے.
معلوم نہیں کیوں میں اظہر حفیظ کی تحریروں کی بجائے اس کی تصویروں پہ بات کرنے لگا. ہاں یاد آیا بات یہ ہے کہ اظہر حفیظ کی تصویریں اور تحریریں الگ کرنا یا ان پر الگ الگ بات کرنا مشکل ہے. وہ جس طرح ایک تصویر کو کمپوز کرتا ہے اس کے پوائنٹ اف انٹرسٹ کا خیال کرتا ہے اسی طرح وہ اپنی تحریروں میں بھی اس کی ثقافتی تفصیل کو مدنظر رکھتا ہے. تصویروں میں وہ یہ سوچ کر ترتیب نہیں دیتا کہ پہاڑوں کے باہر یا اوپر بادل کہاں ہوں گے . وادی کے اندر مخلوق خدا کہاں ہوگی .میرے کردار کا رخ کس طرف کو ہوگا. یہ سب کسی اے ائی کے تحت نہیں بلکہ بقول اقبال
تقدیر کے پابند نبادات و جمادات
مومن فقط احکام الہي کا ہے پابند
کے مصداق اپنی پابندیاں اقدارکے تابع کرتا ہے اور تخلیق کرتا رہتا ہے. اس لئے جب یا جو لکھنا چاہتا ہے قلم اس کا ساتھ دیتا ہے. وہ لکھنے کے لیے وقت کا ماحول کا اور موڈ کا پابند نہیں. وہ شاعر ہے لیکن تصویر بناتا ہے وہ لکھاری ہے اور تحریر بناتا ہے. اس کی تصویریں دیکھ کر دل واہ کہہ اٹھتا ہے اور تحریریں پڑھ کر آہ کہہ اٹھتا ہے.اس واہ اور آہ کا نام اظہر حفیظ ہے.
اظہر حفیظ کی تحریروں میں رنگ ہوتے ہیں وہ تصویریں لگتی ہیں. اس کی تصویروں میں کہانی ہوتی ہے اس لیے تحریریں لگتی ہیں.ان ہی رنگوں حرفوں کو آنسووں میں گوند کر یہ لا ئل پوریا بنا ہے .اس کے بارے میں لکھنا خود جگر گردے کا کام ہے.

ایک مرتبہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہ کیسے لکھتے ہو تو اس نے کہا خون سے اور آنسوؤں سے اور میں سوچ رہا تھا کہ واقعی رات کے دو بجے لکھنے کے لیے روشنائی نہیں خون ہی درکار ہوتا ہے.
اظہر نیاز