جماعت اسلامی کے علی برادراں اور جہان شوکت عطا محمد تبسم

میاں صاحب سے میرا محبت کا رشتہ ہے، سعید زماں حکیم محمود زماں کے چھوٹے صاحبزادے تھے، اور میری محبت ان پر نثار تھی، میں سر شام سعید کے پاس جاتا اور رات گئے تک اس کے ساتھ رہتا، مسجد میں نمازوں میں میاں صاحب سے سلام دعا ہوتی، لطیف آباد 7 نمبر میں میاں محمد شوکت کا گھر سعید الزماں کے پڑوس میں تھا، زندگی میں بہت سے شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں، جو دل میں اپنی جگہ بنالیتی ہیں، اور ہم ان کے سحر سے کبھی نہیں نکل پاتے۔ سعید الزماں اور میاں محمد شوکت دونوں کی محبت اب بھی مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ سعید تو ابھی رخصت ہوا ہے۔ اس کی جدائی کا زخم تازہ ہے، لیکن میاں محمد شوکت کو رخصت ہوئے تو 24 برس گزر گئے۔ لیکن وہ اب بھی میری یاد میں زندہ ہیں، میاں محمد شوکت کی شخصیت ایسی ہی تھی ان کی شخصیت میں ایک رعب تھا، سنجیدہ اور برد بار ۔ وہ غصے میں کم ہی نظر آتے تھے۔ لیکن ہم جیسے نوجوانوں سے تو انھیں خصوصی انس ، اور تعلق تھا۔ وہ محبت سے پیش آتے تھے۔ جب میں نے صحافت کی تعلیم کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انھوں نے بے حد خوشی کا اظہار کیا ، اور جسارت کے پبلشر سید ذاکر علی کے نام ایک تعارفی خط بھی لکھا۔ دور سے لگتا تھا کہ وہ بہت سخت گیر شخصیت کے حامل ہیں لیکن جب ان سے بات ہوتی تو پتہ چلتا کہ وہ تو بہت ہی نرم دل اور بہت ہی اچھے انسان ہیں۔

جماعت اسلامی کے علی برادراں ، میاں محمد علی اور میاں محمد شوکت نے سندھ میں جماعت اسلامی کی بنیادوں میں اپنے محنت اور لگن سے دعوت دین کی جو خدمت کی ہے، وہ ہمیشہ یاد رہے گی۔ میاں محمد شوکت نے تقریبا پانچ دہائی حیدرآباد اور سندھ میں بھرپور سیاسی اور دعوت دین کی خدمت کی زندگی گزاری۔ وہ حیدآباد میں جماعت اسلامی کی سب سے بڑی شناخت بن کر ابھرے۔ وہ 1977 کے ہنگامہ خیز دور میں حیدراباد کے مقبول ترین، اور محبوب سیاسی رہنما تھے۔ ان کے دروازے بے وسیلہ اور مظلوم افراد کے لیے کھلے رہتے تھے، رات گئے بھی کوئی شخص مدد کے لیے ان کے دروازے پر پہنچ جاتا تو میاں صاحب ، ٹوپی پہن کر کسی بھی مصیبت زدہ فرد کے ساتھ گھر سے نکل جاتے تھے۔ 1977 کی تحریک نظام مصطفے میں انہیں گرفتار کیا گیا اور کئی روز تک انہیں لاپتاکیے رکھا۔ انھوں نے سندھ میں شرافت کی سیاست کو وقار بخشا۔ وہ سندھی اور مہاجر حلقوں میں یکساں مقبول تھے۔ انھوں نے مولانا مودودی کی تفہیم القران کو سندھی میں ترجمہ کرکے شائع کرنے کے سلسلے میں بہت کام کیا ، سندھی رسالے ونجھار کی اشاعت کو ممکن بنایا۔ ان کے کام ، ان کا انداز، دعوت دین کے لیے ان کی تڑپ کے یادگار نقوش آج بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے ۔میاں محمد شوکت نے ارباب اختیار و امراء اور روسا، تاجروں کے ساتھ اپنے ہم اثر نامور سیاست دانوں سے بھی اسی طرح خراج تحسین حاصل کیا جس طرح وہ غریبوں سے اعتماد اور عزت حاصل کیا کرتے تھے خوش قسمتی کے ساتھ انہیں حیدرآباد سندھ میں جنرل ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے نظام سے لے کر 1970اور 1977 کے یادگار عام انتخابات کی سیاست تک کا زمانہ ملا۔ قومی اتحاد نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا تو 16 مارچ 1977 کو سرے گھاٹ کی مدینہ مسجد سے نکلنے والے پہلے احتجاجی جلوس کی قیادت میاں شوکت نے کی تھی ۔ اس جلوس پر بری طرح شیلنگ اور فائرنگ کی گئی تھی ،جس سے کئی افراد شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تھے۔ 1977 کے انتخابات میں میاں محمد شوکت نے پیپلز پارٹی کے چوہدری محمد اشرف کو تقریبا 60 ہزار ووٹوں سے شکست دے کر قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ وہ جماعت اسلامی سندھ کے جنرل سیکرٹری حیدرآباد اور ضلع کے امیر بھی رہے۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے رکن بھی رہے۔ میاں محمد شوکت کی یاد اس لیے بھی تازہ ہوئ کہ ان کے انتقال کے 24 برس بعد ، ان کئ شخصیت ، کردار، اور جدوجہد کے حوالے سے کتاب ” جہان شوکت ” حال ہی میں شائع ہوئی ہے، اس کتاب کو ممتاز صحافی ظہیر احمد نے مرتب کیا ہے اور فضلی سنز کے طارق رحمن نے شائع کیا۔ یہ کتاب یوں تو میاں صاحب کی حیات اور خدمات اور جدوجہد کا احاطہ کرتی ہے، لیکن یہ حیدرآباد کی سیاسی تارٰیخ کی ایک نادر اور اہم دستاویز بھی ہے، جس میں حیدرآباد کے ممتاز شخصیات ،سیاستدانوں، عالم مولانا غلام مصطفے خان، بھٹو ، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ،مولانا محمد علی رضوی ، میر رسول بخش تالپور، میر علی احمد تالپور، مولانا وصی مظہر ندوی، مولانا جان محمد عباسی، پروفیسر کریم بخش نظامانی، مولانا مصاحب علی، حاجی کریم اللہ شیخ، حکیم مظہر الدین بقائی، احمد جمال اعجازی،شیخ شوکت علی، مشتاق احمد خان، عبدالوحید قریشی، رانا محمود علی خان ،قاضی عابد ، قمر الزماں شاہ ،جیسے سینکڑوں افراد کا تذکرہ ، انکشافات واقعات، شامل ہیں، اسے حیدرآباد کی سیاست کا انسائیکلوپیڈیا بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں میاں محمد علی کی تحریر ” ہم دو بھائی ” بھی جماعت اسلامی کی تاریخ ، اور جماعت اسلامی سندھ کے علی برادراں کی جدوجہد کا شہ پارہ ہے۔ کتاب میں ممتاز صحافی مجیب الرحمان شامی، اور ان کے بیٹے عمر مجیب شامی اور فیصل شامی اور بیٹی ڈاکٹر سویرا شامی کی تحریریں بھی شامل ہیں، کتاب میں بہت سے نادر رنگین تصاویر بھی شامل ہیں، مجموعی طور پر میاں محمدشوکت پر یہ کتاب ایک عظیم سیاسی اور سماجی اور دین کے لیے جدوجہد کرنے والے شخصیت کا شاندار تعارف اور نئی نسل کے لیے ایک تحفہ ہے۔