باپ کی حکمرانی عطا محمد تبسم

باپ پھر باپ ہی ہوتا ہے، اس کے حکم سے تو سرتابی ممکن نہیں ہے، یوں بھی ہمارے معاشرے میں باپ ہی کی حکمرانی ہوتی ہے ، باپ کے فیصلے پر سب کو سر جھکانا ہی پڑتا ہے ، جو ناخلف باپ کے فیصلوں سے سرتابی کرتے ہیں ، ان کی دنیا اور آخرت دونوں ہی خراب ہوتی ہے۔ یوں بھی ہمارے سیاست دانوں نےکئی برسوں سے اپنے” مائی باپ ” پر ہی سارا بوجھ ڈالا ہوا ہے، قرضوں کی ضمانت وہ دیں۔ ملک کی خارجہ پالیسی وہ بنائیں سرحدوں کی حفاظت وہ کریں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی نگہبانی وہ کریں ۔ ملک کی سالمیت کے لیے وہ دن رات ایک کریں۔ سیاست دان ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ صلح کرائیں۔ کس کو کس پارٹی میں جانا چاہیے۔ کب پارٹی چھوڑ دینی ہے۔ کب نئی پارٹی بنانی ہے۔ پارلیمنٹ میں جو گالی گلوچ ہوجائے اور سیاست دان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں تو انھیں بندے کا پتر بنانے کے لیے مل ملیاں کرانا، پھر الیکشن کرانا، ججوں صحافیوں میڈیا کو حدود میں رکھنا۔ صحافیوں کو خبر لکھنے دینے کا سلیقہ سکھانا۔ اینکروں کے لے موضوع کا انتخاب کرنا۔ کس سیاست دان کا نام لینا ہے اور کس کا نام نہیں لینا، کونسا چینل چلنا ہے اور کونسا بند ہونا ہے۔ غرض مائی باپ کے ذمہ اس قدر کام لگادئیے ہیں کہ اب وہ اپنا اصل کام بھی بھولتے جارہے ہیں۔ سیاست دان سارے کے سارے نکھٹو، نکمے ، کام چور ، بدمعاش، کرپٹ،ملک دشمن ہیں۔اب ایسے ملک دشمنوں بد دیانت غیر محب وطن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی قیادت تو نہیں دی جاسکتی۔ بھلے سے عوام ان کے حق میں ووٹوں سے صندوقچے بھر دیں۔ ووٹ کی حفاظت کی ذمہ داری اور اور ووٹ کی گنتی کی حتمی منظوری تو انھی مائی باپ سے لینی ہے۔ ایک ووٹ کی اکثریت سےاگر سینٹ کا چیئرمین بن جائے تو یہ بھی مائی باپ ہی کا فیصلہ ہے۔ اور اگر ان کی آشیر باد سے ملک کے نگراں وزیراعظم کی قسمت چمک اٹھے تو یہ بھی خوش بختی ہے۔
آج کل یوم آزادی پر پوری قوم خوش ہے، بچے سقہ کی حکومت ختم ہوئی، تاریخ میں یہ حکومت ڈیڑھ دن کی حکومت تھی، جو بادشاہ نے ایک سقے کو عنایت خسروانہ سے عطا کی، بچہ سقہ یہ سوچتا رہا کہ وہ اس حکومت میں ایسا کون سا کام کرجائے کہ تاریخ میں اس کا نام محفوظ ہوجائے، لوگ یاد کریں ، سو اس نے چمڑے کے سکہ جاری کردیئے، اسے چمڑے سے محبت تک وہ مشکیزے سے پانی بھرتا تھا ، اور مشکیزہ چمڑے کا تھا، سو یوں تاریخ میں بچے سقے کی حکومت اس کارنامے پر ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئی، ہماری ڈیڑھ سالہ بچہ سقے کی حکومت میں ایک تاریخی کام تو یہ ہوا کہ شہباز شریف کا نام نامی وزیر اعظم کی فہرست میں لکھا گیا، پھر ان کی لاؤ لشکر والی کابینہ بھی پوری طرح خزانے کی صفائی کرتی رہی، وہ جاتے جاتے آئی ایم ایف کے ایسے پھندے میں قوم کو گرفتار کرگئے کہ اب ہر شہری کو دن میں تارے نظر آرہے ہیں، بجلی گیس پیٹرول آٹا، دال، دودھ سب کو بھاؤ معلوم ہوگیا۔ پھر قانون سازی کی ایسی جلدی اور مارا ماری تھی کہ ایک ہی دن میں 122 قوانین کو پارلیمنٹ اور ایوان بالا سینٹ سے منظور کرالیئے۔ اس سب میں باپ کی شفقت اور اس کرم فرمائی شامل رہی، کیونکہ ملک میں باپ کی مرضی کے بغیر اب پتہ بھی نہیں ہل سکتا، لیکن سیاست دانوں کو جو داغ لگ گیا ہے، وہ اس کی تلافی بہت عرصے تک نہ کر پائیں گیں گے۔ ان کے پہرے اور ان کو حفاظت میں رکھنی والی آہنی دیواریں ہٹی ہیں، اب انھیں عوام کے پاس جانا ہے، اور عوام ان کا کیا حشر کریں گے، اس کا اندازہ کچھ کچھ ہونے لگا ہے،
سندھ کے وزیر اعلیٰ ہمارے شاہ صاحب ابھی ابھی فارغ ہوئے ہیں۔ لیکن جاتے جاتے ٹرین حادثے کے بعد جائے حادثے کے ہیلی کاپٹر جائزہ اور علاؤہ مکینوں سے خطاب کے موقع پر انھیں جس انداز سے لوگوں نے رخصت کیا ہے۔ اس سے انھیں زمانے کی بے مروت ہونے کا اندازہ ہوگیا۔ شاہ صاحب نے بہت مشکل سے عزت بچائی۔ ورنہ لوگوں نے تو شاہ صاحب پر بہت پھول برسائے۔ یہ الگ بات کے یہ پھول کسی جادو کے زور پر پتھروں کی شکل اختیار کرگئے۔ مفاد پرست اور مائی باپ کے لاڈلے سیاست دانوں سے نفرت اب عوام کے دلوں میں رچ بس رہی ہے۔ وہ موقع کے انتظار میں ہیں۔ اب انھیں یہ موقع کب ملتا ہے۔ یہ ان کی قسمت۔ آنے والا الیکشن بہت انوکھے اور حیرت ناک نتائج لائے گا۔ یہ ایک طوفان ہوگا۔ فی الحال تو مائی باپ نے اس طوفان کے آگے بند باندھ رکھا ہے۔ لیکن جب ساون برسے گا تو پھر یہ بندھن کام نہیں آئیں گے اور آنے والا طوفان سب کچھ بہا لیجائے گا۔
بابائے قوم سے پاکستانی عوام کو بے حد عقیدت اور محبت ہے، وہ اپنے قائد سے محبت کے اظہار کے لیے صرف قومی تہوار اور یوم آزادی اور یوم پاکستان پر نہیں بلکہ ہر روز کرنا چاہتے ہیں، سندھ حکومت کو مزار قائد اعظم پر آنے والے لوگوں کو فاتحہ خوانی سے روکنے کا کوئی جواز نہیں ہے، قائد کے مزار پر جو شان و شوکت ان کے گارڈ کے متعین ہونے اور گارڈ کی تبدیلی کے مناظر سے ہوتی تھی، وہ بچوں اور بڑوں کے لیے ایک خوش کن منظر تھا۔ اس سال یوم آزادی پر قوم کو بابائے قوم کے مزار پر لگائی جانے والی یہ پابندی ختم کرنی چاہیئے، 76 سال میں ہم قائد اعظم کے مزار سے منسلک جو منصوبے تھے، ان کی تکمیل نہیں کر سکے، قائد اعظم کے مزار کے سامنے پلاٹ کی حالت دیکھنے والی ہے، یہاں نشئے اور ہیرونچی پھرتے ہیں، ہمیں قائد کے شایان شان ایک شاندار کمپلیکس تعمیر کرنا چاہیئے، جہاں تحریک پاکستان، سے متعلق ایک شاندار میوزیم لائیبری ہونی چاہیئے۔ پہلے کی طرح عوام کو یہ موقع ملنا چاہیئے کہ وہ مزار پر حاضری دیں ، اور فاتحہ خوانی کرسکیں،