سب منع ہے تحریر محمد اظہر حفیظ

ایک وقت تھا زندگی سادہ تھی اور کم ہی سہولیات موجود ہوتی تھیں۔ جیسے جیسے سہولیات میسر ہونا شروع ہوئیں منع کرنے والے بھی زندگی میں آنا شروع ہوگئے۔
آج ایک ہندوستانی اداکار کا انٹرویو دیکھ رہا تھا، سردار جی ایک سمارٹ انسان تھے کسی نے پوچھا سردار جی سمارٹنس کا راز کیا ہے۔ کہتے ہیں میں نے کہا کہ میں روٹی نہیں کھاتا۔ اس نے پوچھا سردار جی کب سے نہیں کھاتے سردار جی نے بڑی سادگی سے جواب دیا جب سے ملنا شروع ہوئی ہے۔
مجھے کبھی فورڈ کمپنی کے مالک یاد آرہے تھے جو بران بریڈ ہی کھاسکتے تھے کبھی مجھے آصف علی زرداری یاد آرہے تھے کبھی ضیاء شاہد مرحوم کہ جن کے پاس سب کچھ تھا پر کھا کچھ نہیں سکتے تھے۔
مجھے میری والدہ صاحبہ سناتی تھیں کہ ایک بادشاہ تھا اس کے سامنے دستر خوان پر دنیا کی ہر قسم کا کھانا موجود تھا اور وہ کہتا تھا کہ کاش وہ بھی ہوتی۔ ایک شخص نے پوچھا وہ کیا ہے جو یہاں نہیں ہے ۔ بادشاہ نے جواب دیا بھوک۔
آج میں نئی نسل کو دیکھتا ہوں تو سب دسترخوان پر موجود ہونے پر انھوں نے وہ کھانا ہوتاہے جو دستر خوان پر موجود نہ ہو۔
میری بیگم صاحبہ روزانہ کئی کھانے پکاتی ہیں اور ایک ناشکری سی آواز میرے کان سے ٹکراتی ہے کہ یہ آپ روز کیا کیا پکا لیتی ہیں۔ ہم سے نہیں کھایا جاتا چلیں فوڈ پانڈا سے ڈیل منگوا دیں یا پھر کوئی اور ایسا کھانا جو صحت کیلئے نقصان دہ ہو۔
ساری دنیا میں ثابت ہوچکا ہے کہ سافٹ ڈرنکس صحت کیلئے نقصان دہ ہیں اور سب کے بچے چھپ کر کولڈ ڈرنکس پیتے ہیں۔
میرا بہت دل کرتا ہے صبح اٹھوں حلوہ پوری اور چنے کھاؤں، پراٹھے اور فرائی انڈے کھاؤں ساتھ دودھ پتی پیوں، حاجی کی نہاری کھاوں۔ کابلی پلاو کھاوں، حبیبی کا پلیٹر کھاوں، پھر مجھے یاد آتا ہے کہ مجھے یہ سب منع ہے دو بران بریڈ کے سلائس ساتھ دو ابلے ہوئے انڈے اور پھیکی چائے ہمراہ اٹھ عدد گولیوں کے نوش فرماتا ہوں اور اپنے آپ کو فورڈ کمپنی کا مالک سمجھتا ہوں۔
میں دوسری زندگی جی رہا ہوں الحمدللہ ۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ناشتے میں بران بریڈ ابلے انڈے، دوپہر کو ایک سیب اور رات کو بران بریڈ اور ابلا ہوا چکن کب سے کھا رہے ہو تو میرا جواب ہوگا کہ جب سے یہ زندگی ملی ہے۔
میرا ہر چیز کھانے کو دل کرتا ہے پر دل کو سمجھاتا ہوں کہ دنیا کی سب نعمتوں میں سے تمھیں چند کی اجازت ہے باقی سب منع ہیں۔
سچ بتاوں مجھے اب منع میں ہی مزا آنے لگ گیا ہے۔ جو بھی سامنے لا کر رکھیں میں آسانی سے نہ کرنا سیکھ گیا ہوں۔ الحمدللہ
مجھے یاد آتا ہے کہ میری امی جی بتاتی تھی بیٹا یہ گلی میں جو لوگ چیزیں تقسیم کرتے ہیں وہ غریب لوگوں کیلئے ہوتی ہیں ہم نہیں لے سکتے۔ ہم صاحب حیثیت ہیں۔ میرا دل کبھی کبھی کہتا تھا کہ یار ہم غریب کیوں نہیں ہیں ۔ اتنا دل کرتا ہے پر صاحب حیثیت ہونا راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اب سب کچھ موجود ہے ، سب میرے سامنے کھاتے ہیں اور میں صاحب حیثیت بن کر ان سب کو کھاتے دیکھتا رہتا ہوں۔ دل کو تسلی دیتا ہوں کہ مجھے یہ سب منع ہے ۔