لندن سے دبئی تک عطا محمد تبسم

پاکستان کی قسمت کے فیصلے پہلے لندن میں ہوتے تھے، اب دبئی میں ہورہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان فیصلوں میں عوام اور ان کی رائے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، انتخابات کیسے ہوں گے، نگران حکومت میں کون کون حصہ دار ہوں گے، یہ سب اب ایک معاہدے کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ اس عبوری سیٹ اپ کے تحت ہونے والے انتخابات کیسے ہوں گے، اس کے بارے میں آپ ابھی سے اندازہ کرسکتے ہیں، جیت کے حصہ دار بہت ہوتے ہیں، چاہے یہ جیت طاقت ،اور پیسے کے بل بوتے پر حاصل کی ہو یا دھاندلی کے ذریعے ۔ ہار نے والوں کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ یہ تجربہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی سے کرلیا ہے۔ پاکستان میں خاندانی سیاست مستحکم ہے، اور مستقبل میں بھی سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری قائم رہے گی۔ دبئی میں دو طاقتور سیاسی خاندانوں کے سربراہان اور خاندانوں کی ملاقات میں ملک میں آئندہ کی سیاست کے جو اہم فیصلے ہوئے ہیں،وہ اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ فوج سے معاملات کرنے میں آصف زرداری نواز شریف سے دو ہاتھ آگے ہیں۔اس ملاقات میں مبینہ طور پر آئندہ نگراں سیٹ اپ کے ساتھ ساتھ مستقبل کے اتحاد کی تشکیل پر اتفاق رائے ہوا ہے۔اس ملاقات میں دونوں بااثر خاندانوں نے اپنی جانب سے مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر مریم نواز، اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی شریک رکھا۔ یہ ملاقات پاکستانی سیاست میں خاندانی غلبہ کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے عملی طور پر انتخابات کے بعد طاقت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہے۔لیکن ملاپ اور

دبئی ملاقات یقینی طور پر جمہوریت کے نئے چارٹر پر دستخط کرنے کے لیے نہیں تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد دونوں خاندانوں کے زیر تسلط موجودہ طاقت کے ڈھانچے کو مستحکم کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا تھا۔ کسی تیسرے ملک میں جمہوریت کے سیاسی لیڈروں کی حصول اقتدار کے لیے ہونے والی ملاقات کی یہ ایک انوکھی مثال ہے۔ سیاست خاندانی معاملہ بن جائے تو منتخب جمہوری فورمز غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی خاندان ہے۔ جس کے ممبران باری باری حکومت کرتے ہیں۔

عبوری انتظامیہ کی تشکیل پر دونوں خاندانوں کے بڑے افراد کے درمیان ہونے والا معاہدہ آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے، جس کی آئینی شق میں کہا گیا ہے کہ نگراں انتظامیہ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے اور اس کے نام قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت سے طے ہونا چاہیے۔ لیکن اقتدار کے اس کھیل میں آئین کی پرواہ کسے ہے؟

پی ٹی آئی کے خاتمے کےتمام مراحل کی تکمیل جاری ہے، ورک ان پروگریس کا بورڈ لگا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود عمران خان کا بھوت بہت سے لوگوں کی نیند اڑائے ہوئے ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر عمران خان کی تصویر اور نام لینے پر بھی پابندی ہے، اس سے پہلے الطاف حسین اور نواز شریف پر بھی ایسی پابندیاں عائد ہوئی تھیں، لیکن ان کے لیے عدالتی احکامات کا سہارا لیا گیا تھا۔ لیکن اس بار اس کا بھی تکلف نہیں رکھا گیا۔ پیمرا اور عدالتی احکامات اس بارے میں خاموش ہیں۔ لیکن یہ پابندی اتنی سختی سے جاری ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم اورنگ زیب بھی اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لینے سے کتراتے ہیں، اور ان کا نام لیے بغیرسربراہ پی ٹی آئی کہہ کر کام چلایا جارہا ہے۔ اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انتخابات کے لیے راستہ صاف ہوگیا ہے۔ لیکن ابھی تک ٹائم فریم کہیں نظر نہیں آتا ۔اس پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا الیکشن سے پہلے عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ ریاستی جبرکے ذریعے پی ٹی آئی کے توڑنےکا عمل اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے نئی حکومتی پارٹی کے قیام نے پورے جمہوری عمل کو مذاق بنادیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکن جیلوں میں بند ہیں اور دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے خلاف فوجی عدالتوں میں بھی مقدمات کی تیاریاں ہیں۔ فوجی تنصیبات کی متعین تعریف میں کونسے مقامات آتے ہیں، اور کیا نو مئی کے واقعات میںجن مقامات پر حملے ہوئے وہ فوجی تنصیبات کی تعریف میں شمار ہوتی ہے۔فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کو یقیناً سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن اس سے پہلے یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ کونسی فوجی تنصیبات تھیں، جنہیں نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ کریک ڈاؤن سے اس بیانیہ کو تقویت دی ہے کہ یہ تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے دور رکھنے یا کم از کم اسے کمزور کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ان مذاکرات میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی شرکت نے مسلم لیگ ن کی اس امید کو بڑھا دیا ہے کہ نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بن جائیں گے۔ نواز شریف اب سعودی عرب کے دورے پر ہیں، جہاں وہ اعلیٰ سعودی رہنماؤں سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا ، بلکہ ان کے ضامن بھی ہوئے ہیں۔

اس بار میدان جنگ پنجاب بنا ہے، عمران خان پنجاب کے دل لاہور میں برا جمان ہیں، پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں کو جیلوں اور مقدمات کا سامنا ہے، جن کی بڑی اکثریت کا تعلق بھی پنجاب سے ہے، اس طرح پنجاب میں سیاسی کارکنوں کو پولیس اور ریاستی چیرہ دستیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس سےپہلے سندھ ، بلوچستان، سرحد ، کی سیاسی جماعتیں اس صورت حال سے گذر چکی ہیں۔ اے این پی،پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ن ، بلوچستان نیشنل پارٹی منگل گروپ اس ٹوٹ پھوٹ اور کریک ڈاؤن کا شکار ہوچکی ہیں، ان میں سے بیشتر جماعتوں کی شجر کاری اسی نرسری میں ہوئی تھی، جس میں تحریک انصاف کی نشو نما ہوئی ہے۔