ملک کو بحرانوں سے بچانے کا حل تحریر۔۔۔۔ شبیر ابن عادل

1) اس وقت ملک متعدد بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ۔ ریاست کے ادارے باہم دست و گریبان ہیں۔
2) قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا انتخاب کرنے کے لیے پاکستان میں عام انتخابات یا الیکشن 25 جولائی 2018ء کو منعقد ہوئے پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار ہے۔
3). الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف آنے والی قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے 115 نشستیں حاصل کی ہیں مسلم لیگ نواز 64 نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 43 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔
4). سیٹوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس وقت حکومت اور اتحادی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد 183 ہے جبکہ اپوزیشن کو 158 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے جس میں مسلم لیگ ن کے پاس 83، پیپلزپارٹی 58، ایم ایم اے 16، اے این پی کے پاس ایک سیٹ ہے جبکہ حکومت کے پاس مجموعی طور پر 183 سیٹیں ہیں جس میں تحریک انصاف کی 142، ایم کیو ایم 14، باپ 5، جی ڈی اے 4، ق لیگ 4، مینگل گروپ 4 ہیں، تین آزاد ارکان بھی شامل ہیں یہ تعداد مجموعی طور پر 176 بنتی ہے جبکہ فاٹا سے 7 ارکان حکومت میں شامل ہیں، انہیں شامل کر کے حکومت کے پاس ووٹوں کی تعداد 183 ہے۔
5) 2018 کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے اتحادی گروپ نے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ عمران خان نے پنجابی فلموں کے معروف کردار “مولا جٹ” کے کردار کو اپنایا ۔ سیاست میں گندی زبان استعمال کی، ان چوروں کو چھوڑوں گا نہیں ۔ حکومت نے کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف متعدد مقدمات کئے ۔
6) حکومت عوام کےمسائل کے لئے کچھ نہ کرسکی ۔ عوام مہنگائی کے سونامی میں برباد ہوئے ۔
7) اس کے علاوہ بھی حکومت نے بہت فاش غلطیاں کیں ۔ ان کے تذکرے سے بلاگ بہت طویل ہوجائے گا ۔
😎 ، قومی اسمبلی کا اجلاس 10 اپریل 2022ء کی صبح 12:02 پر ملتوی کر دیا گیا۔
10 اپریل 2022ء: قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں سے منظور، عمران خان ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے۔
9) 11 اپریل 2022ء کو، نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا۔ سبکدوش ہونے والی حکمران جماعت پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔ تاہم، ووٹنگ سے چند لمحے قبل، پارٹی نے اسمبلی سے بڑے پیمانے پر واک آؤٹ کیا جس پر قریشی نے دعویٰ کیا کہ یہ ‘درآمد شدہ حکومت’ ہے۔ شہباز شریف، سابق وزیر اعلی پنجاب اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی، بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
10) یوں ملک میں ایک نئے سیاسی باب کا آعاز ہوا لیکن ایک جانب جہاں اقتدار سے رخصت ہو کر دوبارہ حزب اختلاف میں جانے والی پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج در احتجاج کا سلسلہ شروع کیا وہیں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت معاشی میدان سمیت ہر محاذ پر چیلینجز کا سامنا رہا۔۔
. 11) اسی سیاسی ہلچل کے تسلسل میں مختلف نشیب و فراز سے گزر کر پہلے پنجاب کی صوبائی اسمبلی جنوری 2023 کے وسط میں تحلیل کی گئی اور اس کے بعد چار روز بعد ہی خیبرپختونخوا کی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
12). تاہم 90 روز میں انتخابات کا انعقاد نہ ہو سکا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے اپریل کے اواخر میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو کیا مگر سیکیورٹی اور مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث اس اعلان کو بدلتے ہوئے 8 اکتوبر کو پنجاب کے انتخاب کی تاریخ دے دی۔
13) ایک بار پھر معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور 14 مئی کو پنجاب کے انتخابات کا شیڈول کا اعلان کر دیا گیا۔
14). 2023 ملک میں عام انتخابات کا سال ہے اور اس ایک سال کے دوران سیاست کے اتار چڑھاؤ میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا، اسی پر ہم نے کچھ ماہرین سے بات کی ہے۔

15). صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک آنے سے ایک سال قبل عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات شروع ہو چکی تھیں اور ’ان کی مقبولیت کا گراف بھی گر رہا تھا جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں ناصرف اس دور میں ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی بلکہ خیبرپحتونحوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی پی ٹی آئی کے مقابلے میں جے یو آئی کو کامیابی ملی۔‘
’عدم اعتماد سے پہلے عمران حان کی مقبولیت کم اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عوام کے بڑے حلقے میں پذیرائی مل رہی تھی اور اسی باعث اپوزیشن کا اس وقت کی حکمران جماعت پی ٹی آئی پر دباو بھی برقرار تھا۔‘
16) مظہر عباس کے مطابق’اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر 27 مارچ کو انھوں نے اس تحریک کو ناکام کرنے کی کوشش کی تاہم اس میں ناکامی کے بعد انھوں نے سائفر کے ذریعے عوامی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی۔ 9 اپریل 2022 کو اپنے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وہ سڑکوں پر آئے اور اس وقت سے لے کر اب تک پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافہ سامنے آ رہا ہے۔‘
17) مظہر عباس نے عمران حان کی مقبولیت کی وجہ حکمران اتحاد کی پالیسیوں کو قرار دیا۔ ’حکمران اتحاد کی ناقص پالیسیوں کے باعث حکومت کو عوام کو پذیرائی نہیں ملی اور انھی ناقص پالیسیوں نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔‘B’اور اب حال یہ ہے کہ حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں جس کی بنیاد پر وہ ووٹر کے سامنے اس بیانیے کو آگے لے جا سکیں۔‘
18). ’عمران خان اب اس پوزیشن میں ہیں جس میں انھیں صاف نظر آ رہا ہے کہ انتخابات میں انھیں کامیابی ملے گی اور اگر ایسا ہوا تو یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ کسی کو اقتدار سے الگ کیا گیا ہو اور اسے دوبارہ کامیابی مل جائے۔ ‘
19)تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’جو عمران خان نے سیاسی طور پر اپنے لیے مسائل کھڑے کئے، ان میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔‘
20). مظہر عباس کے مطابق ’انتخابات کا سال ہونے کے باوجود اس وقت پاکستان میں تین بڑے چیلینجز ہیں۔ ‘معاشی بحران جو بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے، سیاسی بحران جس میں بات چیت کے دروازے کھلتے نظر نہیں آ رہے اور عدلیہ کا بحران جس میں تقسیم اور ججز کے آپس کے احتلافات سامنے نظر آ رہے ہیں۔‘
21) صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی کے مطابق پچھلے چار سالوں میں پاکستان نے بطور ریاست کافی کچھ کھو دیا ہے اور اس کا تسلسل جاری ہے۔
22). ’جو پارٹیاں پہلے اس پوزیشن میں تھیں جن کی یہ ڈیمانڈ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے باہر رکھیں گے تو کسی حد تک تو وہ خواب پورا ہوا لیکن جو سپیس تھی وہ سیاسی جماعتوں نے نہیں لی لیکن دوسرے اداروں نے حاصل کر لی۔‘
23) ’پاکستان میں طاقت کا مرکز تبدیل ہو گیا۔ پہلے پاور سینٹر اسٹیبلشمنٹ کو کہتے تھے اور اب وہ پاور سینٹر عدلیہ کی جانب چلا گیا۔‘
24). عاصہ شیرازی کے مطابق ’پاکستان نے معاشی سیاسی اور آئینی استحکام کھو دیا ہے اور اب ہر ادارہ ناصرف تقسیم ہے بلکہ اپنی اپنی بقا کی جنگ میں ہے۔پوزیشن بدل گئیں، پہلے جہاں پی ٹی آئی تھی اب وہاں موجودہ حکومت ہے ۔
25)عاصمہ شیرازی کے مطابق ’تحریک انصاف کے پاس نہ پہلے معاشی پلان تھا نہ اب ہے۔ ان کی توجہ روز مرہ کے مسائل پر تو ہے کہ ہم انتخاب میں جائیں، دوبارہ جیت کر حکمران بنائیں لیکن دیرپا پالیسی بنانے پر ان کا فوکس نہیں۔‘

26) تجزیہ کار اور اینکر عارفہ نور بھی عاصمہ شیرازی سے اتفاق کرتی ہیں کہ اس ایک سال میں اقتدار میں رہنے کے باوجود سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن نے اٹھایا۔
’ان کو حکومت تو ملی اور کمزور اتحادی حکومت کا سال پورا ہوا۔ لیکن دوسری طرف مسلم لیگ ن نے پنجاب میں اپنی مقبولیت کھو دی۔‘
27) ’پہلے پنجاب کا کوئی ضمنی انتخاب ایسا نہیں ہوتا تھا جس کو وہ نہ جیتتے ہوں اور آج وہ کچھ بھی کہیں لیکن ہم سب کو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ انتخابات نہیں کروانا چاہتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ الیکشن ہار جائے گی۔‘
28) دوسری جانب عارفہ نور کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ایک سال میں مقبولیت حاصل کی۔ ’انھوں نے غلطیاں بھی کیں مگر کسی غلطی کی اثر ان کی پارٹی کی مقبولیت پر نہیں پڑا۔‘
29) ان کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم حکومت نے بھی اقتدار میں آ کر وہی غلطیاں کیں جو عمران خان کی حکومت نے کیں کیوں کہ بنیادی معاملات میں دونوں ہی کوئی تبدیلی نہیں لا سکے۔‘
30) عارفہ نور نے کہا کہ ’پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہر وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں، جو پاور میں ہوتی ہے وہ بھی اور جو پاور میں نہیں ہوتی وہ بھی۔ ان کے پاس گورننس کا وقت ہی نہیں ہوتا۔‘
31).اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ایک سوال پر عارفہ نور نے کہا کہ ’پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ سے رہا ہے جو باتوں سے ختم نہیں ہو گا۔ ان کا کردار طاقت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ کہنے سے کہ وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں بات ختم نہیں ہوتی کیوں کہ ان کی طاقت اپنی جگہ موجود ہے۔‘
32). عارفہ نور نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اب معیشت کی حالت اتنی خراب ہے کہ جو بھی اقتدار میں آئے گا وہ مقبولیت کھو دے گا۔ اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر معیشت کو سنبھال کیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔‘
33). ’یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی سیاست کا کتنا نقصان ہوا ہے۔ جب تک یہ لڑائی رہے گی کہ کس کو پاور میں لانا ہے اور جو پاور میں ہے اس پر دباؤ رکھنا ہے، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہو گا کہ وہ معیشت کے بارے میں سوچے، یہ کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا۔‘
34) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اشارہ تو گذشتہ برس اکتوبر میں ہی دے دیا تھا تاہم اس کا باقاعدہ اعلان سترہ فروری کو کیا گیا۔
اکتوبر2022 میں عمران خان نے میانوالی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران عندیہ دیا تھا کہ وہ جلد جیل بھرو تحریک کا اعلان کریں گے۔
35). عمران خان نے رواں ماہ اپنے ایک آن لائن خطاب میں اپنی جماعت کے کارکنان کو کہا تھا کہ توڑ پھوڑ کرنے اور سڑکوں پر نکلنےکی بجائے جیلیں بھرنے کو کہا۔ انھوں نے جیل بھرو تحریک کا اعلان ان الفاظ میں کیا تھا:
’میں کال دوں گا ہم سب ایک ہی دن گرفتاریاں دیں گے، قوم تیار رہے۔‘‘ بائیس فروری کو جیل بھرو تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا
۔36) پی ٹی آئی کے ٹویٹر اکاونٹ سے شیئر کیے جانے والے شیڈول کے مطابق ’ملک میں لاقانونیت، آئین شکنی اور مہنگائی کے خلاف پرامن جیل بھرو تحریک‘ پہلے مرحلے میں آٹھ شہروں میں شروع کی گئی ہے۔ دیگر شہروں میں شیڈول کا اعلان مرحلہ وار کیا جائے گا۔
پہلے لاہور، پشاور، راولپنڈی اور ملتان میں جیل بھرو تحریک کے لیے قائدین اور کارکنان گرفتاریاں دینے کے لیے جمع ہوتے رہے ۔ پھر گوجرانوالہ میں پاور شو کیا گیا ۔ جہاں گجرات، سیالکوٹ سمیت چند دیگر علاقوں سے بھی پی ٹی آئی کے کارکنان کے قافلے پہنچ رہے ہیں۔
37). سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 مئی کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کرنے کی دیر تھی کہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ پھوٹ پڑا۔
گذشتہ دو دنوں کے دوران مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات بھی پیش آئے۔ ان واقعات کے بعد پولیس نے نقضِ امن کے خدشات کے پیش نظر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بشمول شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری سمیت سینکڑوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا ۔
38) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئیں تھیں جس کی وجہ سے قیادت کا کارکنان سے رابطہ کٹ گیا۔ انھوں نے اپنے کارکنان کو پرامن احجاج کرنے کی اپیل کی ہے۔
39) طلعت مسعود کے مطابق یہ بات درست ہے کہ عمران خان کو فوج نے شروع میں بہت ’لفٹ‘ دی جس کے ذریعے وہ اقتدار تک پہنچے مگر اب فوج ان کو سپورٹ نہیں کر رہی۔
ان کے مطابق عمران خان کی گرفتاری سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ عمران خان کے ساتھ لوگ کھڑے ہیں۔ ان کے مطابق انھیں عمران خان کی طرز سیاست پر اعتراضات ہیں مگر اس ساری صورتحال کا فائدہ آخر میں عمران خان کو ہو گا۔
40) عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا غیر قانونی، اس سے قطع نظریہ گرفتاری متوقع تھی کیونکہ حکومتی اتحاد نے پانچ نکاتی حکمت عملی طے کرلی ہے۔
اول عمران خان کو تواتر کے ساتھ مقدمات میں الجھا کر رکھا جائے۔ دوئم ان کو گرفتار کرنا ۔ سوئم عمران خان کو نااہل کرنا بھی ایک کھیل کا حصہ ہے تاکہ نواز شریف کی طرح عمران خان کو بھی سیاسی میدان سے باہر رکھا جائے اورکوئی دوسرا سیاستدان پی ٹی آئی کی قیادت کرسکے ۔ چہارم پی ٹی آئی کو ہی سیاسی میدان سے فارغ کر دیاہے ۔پنجم پی ٹی آئی کی دوسرے اور تیسرے درجہ کی قیادت پر گرفتاریوں اور مقدمات کا خوف پیدا کرنا تاکہ وہ خود کو عمران خان سے علیحدہ کرلیں۔
41) عمران خان کی گرفتاری کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر حکومت کے دور میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ اس کہانی کے مختلف ادوار میں کردار بدل جاتے ہیں مگر کہانی کا اسکرپٹ وہی رہتا ہے ۔ سیاسی ایڈونچرز کا کھیل ہمیں یہ نہ ماضی میں کوئی مثبت نتائج دے سکا او رنہ ہی آگے دے سکے گا۔
42). ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو تک او رنواز شریف سے لے کر عمران خان تک سب اسکرپٹ وقتی طو رپر کامیاب ہوئے تھے مگر لانگ ٹرم بنیادوں پر اس کے منفی اثرات قومی سیاست کو بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔عمران خان کی گرفتاری پر جو ردعمل آیا ہے، وہ عوامی سے زیادہ جنگجویانہ تھا ، توڑ پھوڑ یا پر تشدد کاروائیاں ہوئیں، وہ سیاسی ورکرز نہیں کیا کرتے بلکہ ہدف بنا کر گھیراؤ جلاؤ کرنے کی کسی بھی سطح پر پزیرائی ہونی چاہیے ۔
43). یہ بحران محض سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ ریاستی بحران کا منظر پیش کرتا ہے جہاں سیاست ہو یا ادارے سب ایک دوسرے سے ٹکراؤ کے کھیل میں حصہ بن گئے ہیں ۔ عقل ودانش, تحمل , بربادی , دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کے بجائے بدلہ کی یا غصہ کی سیاست میں الجھ گئے ہیں ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’ ردعمل کی سیاست یا بدلہ کی سیاست ‘‘ کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں ملے، قومی سیاست بحران در بحران اور ایک بڑے الجھاو کا شکار ہے۔
44). عمران خان کو گرفتار کرنا مقصد تھا تو اس کے لیے مناسب طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا تھا ، لیکن ایسا نہیں کیا گیا ، پھر اعلیٰ عدلیہ کے ججز نے جو تعریفی کلمات ارشاد فرمائے ، یہ کہے بغیر بھی عمران خان کے حق میں فیصلہ دیا جاسکتا تھا ۔عمران خان عدالتی ریلیف ملنے کے بعد ’’ ایسا ہی ردعمل آئے گا‘‘ جیسے الفاظ نہ بھی کہتے تو ان کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔
45). بنیادی طور پر ہم یہ طے کرچکے ہیں کہ ہم نے آگے نہیں بلکہ پیچھے جانا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بحران کا شکار ہیں اور ہماری ساکھ پر کئی سوالیہ نشان ہیں ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ماضی سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں آئین ، قانون او راداروں کی بالادستی کے بجائے افراد اور شخصیات کو بالادستی حاصل ہے ۔
46). عمران خان کے بارے میں پہلے بھی بھی غلط اندازے لگائے اور اب بھی غلط اندازے لگائے جارہے ہیں۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی عمران کا مدد گار بااثر طبقہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، اتنے عرصہ میں جو خرچہ ہورہا ہے ، کیا کوئی اور سیاسی جماعت اتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ اس مدد اور تعاون کی وجہ سے ہی عمران خان سیاست میں زندہ ہے بلکہ ریاستی اداروں کا امتحان لے رہا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اپنی بری حکمرانی کے باوجود عمران خان واقعی بڑا خطرہ بن کر سیاسی مخالفین پر گرجے ، برسے ۔ اب بھی جو بھی یہ نتیجہ نکال رہاہے کہ ان کی گرفتاری، نااہلی یا ان کی جماعت پر پابندی کی صورت میں کچھ نہیں ہوگا، وہ پھر غلطی پر ہیں ۔اس کا ایک وقت ردعمل ہم نے جو دیکھا ہے وہ اچھا نہیں ہے او رجن لوگوں کو بنیاد بنا کر ردعمل دیا گیا وہ بھی درست نہیں لیکن شاید عمران خان پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
47). پاکستان کو موجودہ حالات میں ایک بڑی مفاہمت کی سیاست درکار ہے ۔ حکومت او رحزب اختلاف کا باہمی ٹکراو، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان سرد جنگ یا اداروں کا کسی ایک فریق کیس ساتھ ٹکراؤ ملکی مفاد کے خلاف ہے ۔عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد جلاؤ گھیراؤ نے ان سنجیدہ عناصر کو جو ہر طبقہ میں موجود تھے اور جو چاہتے تھے کہ مذاکرات کے نتیجے میں مفاہمت ممکن ہوسکے ان کو بھی سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
عملی طور پر وہی طبقہ جیت گیا ہے جو مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتا تھا ۔ اب مذاکرات کی بات پیچھے چلی گئی ہے۔اس کے مقابلے میں انا اور بدلہ کی آگ کو تقویت ملی ہے اور اس کے نتائج خوفناک ہوںگے ۔
48). کاش ہماری سیاسی قیادت اور ادارے کچھ سیکھ پاتے۔ہم جیسے ملک یا ریاستی نظام کو چلارہے ہیں ایسے اب نہیں چل سکے گا,یہ بات جتنی جلدی ہم سمجھ لیں، ہمارے لیے بہتر ہوگاا ور ہمیں سیاسی تنہائی سے با ہر نکال سک
49). چیئرمین PTI کو نیب کے اعلامیہ کے مطابق Islamabad High Court سے قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا -اس گرفتاری کے فوراً بعد ایک منظم طریقے سےآرمی کی املاک اور تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور فوج مخالف نعرے بازی کروائی گئی۔ ایک طرف تو یہ شر پسند عناصر عوامی جذبات کو اپنے محدود اور خود غرض مقاصد کی تکمیل کیلئے بھرپور طور پر ابھارتے ہیں اور دوسری طرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے ملک کیلئے فوج کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے نہیں تھکتے جو کہ دوغلے پن کی مثال ہے۔
جو کام ملک کے ابدی دشمن پچھتر سال نہ کرسکے وہ اقتدار کی حوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر دیکھایا ہے ۔
فوج نے انتہائی تحمل ، بردباری اور restraint کا مظاہرہ کیا اور اپنی ساکھ کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں انتہائ صبر اور برداشت سے کام لیا ۔مذموم منصوبہ بندی کےتحت پیدا کی گئی اِس صورتحال سے یہ گھناونی کوشش کی گئی کے آرمی اپنا فوری ردِ عمل دے جسکو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کیا جا سکے- آرمی کے میچور رسپانس نے اس سازش کو ناکام بنا دیا- ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ اس کے پیچھے پارٹی کی کچھ شر پسند لیڈرشپ کے احکامات، ہدایات اور مکمل پیشگی منصوبہ بندی تھی اور ہے۔
فوج بشمول تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے، فوجی و ریاستی تنصیبات اور املاک پر کسی بھی مزید حملے کی صورت میں شدید ردعمل دیا جائے گا جسکی مکمل ذمہ داری اسی ٹولے پر ہوگی جو پاکستان کو خانہ جنگی میں دھکیلنا چاہتا ہے اور برملہ و متعدد بار اس کا اظہار بھی کرچکا ہے۔
کسی کو بھی عوام کو اکسانے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
50)عدالت میں پیشی کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر اغوا کیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے وہ ذمہ دار نہیں ہیں۔
51)سپریم کورٹ نے نیب کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔
پرتشدد مظاہروں کا ذمہ دار نہیں، عمران خان
دوران سماعت عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے وقت انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر ڈنڈے برسائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عدالت میں پیشی کے سلسلے میں وہاں موجود تھے لیکن انہیں اغوا کر لیا گیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ مجرموں والا سلوک کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جو جماعت الیکشن چاہتی ہے، وہ انتشار کی خواہش مند کیسے ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے عمران خان کو یہ بھی کہا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ان کی جماعت کے کارکن پر امن رہیں گے۔
52) خیال رہے کہ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پاکستان میں جاری مظاہروں میں کم ازکم پانچ افراد کے ہلاک ہونے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مظاہرین نے فوج کی املاک کے ساتھ ساتھ دیگر سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا تھا..پنجاب بھر میں ایک ہزار سےزائدگرفتاریاں، انٹرنیٹ سروس معطل
53). اس کے نتیجے میں مخلتف شہروں میں فوج طلب کر لی گئی تھی جبکہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے تشدد کے ان واقعات کو ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب قرار دیتے ہوئے پر تشدد مظاہروں میں ملوث افراد سے سختی سے نمٹنے کا انتباہ بھی جاری کیا تھا۔
54) عمران خان کی رہائی کے بعد نہ جانے تحریک کے مرکزی عہدیدادوں کو کیا گھول کر پلایا گیا کہ وہ گروہ در گروہ تحریک انصاف چھوڑنے لگے ۔ تمام ٹی وی چینلز پر روزانہ ان سے ٰاعتراف کرایا جاتا ہے اور وہ اس طرح پی ٹی آئی چھوڑتے ہیں، جیسے وہ طالبان کے دہشت گرد تھے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو پاکستان کی25. کروژ آبادی پاکستان تحریک انصاف سے اپنی لاتعلقی کا اعان کردے گی ۔
55). یہاں تک ماضی قریب میں پیش انے والے واقعات بیان کئے گئے طوالت کے باعث دوسرے اور آخری حصے میں ان بحرانوں کے حل کے لئے اپنی تجاویز پیش کروں گا ۔
تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اس بلاگ کا. مطالعہ کرکے کمنٹ ضرور کریں ۔
—————-