قلم شگوفیاں۔ وہیل چیئر تحریر۔ سبطین ضیا رضوی

آپ نے اپنے آس پاس مختلف کرسیاں دیکھی ہوں گی۔ جو اپنی بناوٹ اور مقام کی وجہ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ مگر سب کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ اس پر کچھ دیر بیٹھا جاۓ۔ اور یہ بیٹھنا کل وقتی نہیں بلکہ ہمیشہ جز وقتی ہی رہا ہے۔ کرسیاں بڑی ہوں یا چھوٹی، سستی ہو ں یا مہنگی، لوہے، لکڑی ، پلاسٹک کی ہوں یا فوم والی ،سب عارضی ہوتی ہیں۔
کرسی صدر، وزیر اعظم یا کسی وزیر مشیر کی ،نواب کی ہو یا سیٹھ کی ،استاد کی ہو یا وکیل کی، ڈاکٹر کی ہو یا انجینیئر کی، افسر کی ہو یا کلرک کی ،باربر کی یا چوکیدار کی ،بس ایک نہ ایک دن چھوڑنی پڑتی ہے ۔ ہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ یا تو بندہ عزت کے ساتھ چھوڑ دے ورنہ دوسرا طریقہ تو ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے وہ ہےبس زرا سی عزت کروا کر چھوڑنا۔
اسی کرسی کو انگریزی میں چیئر کہتے ہیں اور اگر اس کے ساتھ پہیے یعنی وہیل لگے ہوں میرا مطب گھومنے پھرنے والی کرسی تو اسے وہیل چیئر کہتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ کرسی ایسے مریض کے لیئے بنائی گئی تھی جو اپنے پاؤں اور اپنی ٹانگوں کے سہارے نہ چل پھر سکتا ہو بلکہ جہاں نچلا دھڑ اوپر والے دھڑ کو نہ سہار سکے۔ اس کی امید کی آخری کرن اور اس کی مختصر سی دنیا یہی وہیل چیئر ہوتی ہے۔
شروع شروع میں لوگ انتہائی مجبوری کی حالت میں وہیل چیئر استعمال کرتے تھے۔ایسے لوگ تین قسم کے ہوتے تھے۔ ایک پیدائشی معذور اور دوسرے وہ جنہیں بعد میں کسی بیماری نے گھیر لیا۔ اور تیسرے جن کی زندگی میں کوئی حادثہ پیش آیا ہو اور اس کی وجہ سے معذوری آئی ہو۔پھر حادثات بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عمومی حادثات ہوتے ہیں جیسے سڑک پر ٹریفک حادثہ یا اپنے کسی فرض کی ادائی میں حادثے کا شکار ہونا جیسے کسی کھمبے ،سیڑھی یا گو پھٹے وغیرہ سے کسی راج مستری کا گرنا۔ دوسرا حادثہ ہے جنگی یا لڑائی چاہے وہ ملک دشمن عناصر سے ہو یا آپس میں گروہی اور ذاتی قسم کی لڑائیاں ۔ایسے میں دشمن یا اپنوں کی کاری ضرب بھی تندرست اور چنگے بھلے بندے کو اپاہج بنا دیتی ہے۔
حادثوں کی ایک تیسری قسم بھی ہے جسے چوری کے دوران کوئی ٹانگوں پر گولیاں مار دے یا کسی ایسی ہی غیر اخلاقی وادات کے دوران عام شہریوں یا پولیس سے کٹ کھا کر ٹانگیں تڑوا بیٹھنا وغیرہ۔
اللہ معاف کرے ایسی معذوری پوری زندگی اپنے اصل سبب اور تمام حالات و واقعات کے شدومد کے ساتھ ساری زندگی یاد رہتی ہے۔البتہ وہیل چیئر کی بیچارگی اور سادگی دیکھئے کہ وہ بغیر کوئی وجہ جانے ، جذبہ خدمت سے سرشار ہر معذور کے آگے بچھی جاتی ہے اور سب کو یکساں سہولت اور راحت بہم پہنچاتی ہے۔
عمومی طور پر وہیل چیئر پر موجود شخص کے ساتھ ہمدری اور محبت کا اظہار کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے۔ اس کی خصوصی عزت اور نگہداشت کی جاتی تھی۔وہیل چیئر کا سب سے زیادہ استعمال ہسپتالوں اور صحت سے متعلقہ مراکز میں کیا جاتا تھا۔ جہاں ڈاکٹر اور دوسرے تشخیصی شعبے جیسے ایکسرے اور لیبارٹری بھی وہیل چیئر والے والے مریض کو دوسروں پرفوقیت دیتے تھے۔ ان کو نمبر اور لائن میں نہیں لگوایا جاتا تھا۔ یوں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی یہ خصوصی مہربانی مشہور ہو گئی اور پھر اس میں دو نمبری ہونے لگی۔
سب سے پہلے کسی اندر کے بندے نے ہی کسی اپنے جاننے والے مریض کو یہ گر بتایا کہ رش بہت ہے اگر جلدی چیک ہونا ہے تو مریض کو اسٹریچر یا وہیل چیئر پر ڈال کر لے آو۔ ڈاکٹر صاحب کلینک سے نکل کر مریض کو جلدی دیکھ لیں گے۔ پھر کیا ہوا۔ بات نکل گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہٹا کٹا مریض عمومی مسائل کے ساتھ ہسپتال پیدل ہی پہنچتا ہے۔ پھر اپنا شناختی کارڈ دیا ،وہیل چیئر لی ،ایک مددگار کو ساتھ لیا ۔ اب ڈاکٹر بھی تنگ پڑ گئے ہیں کہ اگر ڈاکٹر کے روم کے باہر پندرہ مریض ہیں تو ان میں پانچ سات تو وہیل چیئر پر” جھوٹے”لے رہے ہوں گے۔کسی بھی ہسپتال کی ایمرجینسی کا مشاہدہ کریں وہیل چیئرز کم پڑ جاتی ہیں۔
ہسپتالوں کے بعد وہیل چیئر کے استعمال کا دوسرا بڑا مرکز ہماری عدالتیں ہیں۔ جہاں وکیل صاحب خود مشورہ دیتے ہیں کہ ملزم کا میڈیکل بنوا کر وہیل چیئر پر بٹھا کر لے آنا۔ اگلا کام میں سنبھال لوں گا۔ میں دیکھتا ہوں جج صاحب کیسے ضمانت نہیں دیتے۔ اور پھر ضمانت مل بھی جاتی تھی۔ لوئر کورٹس میں یہ کام اکا دکا شروع ہوا۔ اور پھر یہی تکنیک عدالت ہاۓ عظمیٰ اور عالیہ میں بھی دیکھنے کو ملی۔
بس فرق اتنا تھا کہ پرانی پھٹیچر اور بوسیدہ وہیل چیئرز کی جگہ صاف ستھری مہنگی اور چمچماتی وہیل چیئرز اور عام ملزم جیسے پھتو ،گامے، تاجے کی جگہ وی آئی پی ملزمان نے لے لی۔ جو عدالت سے سیدھا ہسپتال کے وی آئی پی رومز میں جاتے اور وہاں اپنی پر تعیش زندگی سے لطف اندوز ہوتے اور تمام تر جائز نعمات اور ممنوعہ مرکبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ وہیل چیئزر کے باطنی ،سیاسی اور طبی فیوض وبرکات کے صدقے ان کو نہ صرف ضمانت پر رہائی ملتی بلکہ بیرون ملک علاج کی اجازت بھی مل جاتی ہے ۔
اور یوں ان کا اور وہیل چیئر کا ساتھ صرف بورڈنگ یا جہاز کی سیڑھیوں تک ہی رہتا۔پچھلے پانچ سات سالوں کے وی آئی پی مقدموں پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ کو عدالتوں کے اندر وہیل چیئرز کا کافی عمل دخل ملے گا۔
ان دو مراکز کے علاوہ اکا دکا وہیل چیئر کیس لاری اڈوں ریلوے اسٹیشوں اور ہوائی اڈں کے علاوہ پبلک پارک میں بھی ملیں گے جہاں چند معذور اور بزرگ شہری اپنی معمول کی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ملیں گے۔البتہ چند ناکارہ قسم کی وہیل چیئرز بھکاریوں کے زیر استعمال بھی ہیں۔جہاں وہیل چیئر کے استعمال میں جدت آئی ہے وہاں وہیل چیئر بنانے والے بھی اس کی جدید ساخت متعارف کروا چکے ہیں۔ اب آپ کو بہت سی الیکٹرکٹ وہیل چیئرز بھی دیکھنے کو ملیں گی ۔ جو بیٹری اور شمسی توانائی اور ریموٹ کی مدد سے چلتی ہیں اور آپ کے موبائیل فون کو ریچارج بھی کرتی ہیں۔اور ساتھ ہلکی پھلکی موسیقی بھی سناتی ہیں۔