انسانی معاشرہ ۔کل اور آج۔ تحریر۔ سبطین ضیا رضوی

انسان نے جب اس کائنات میں آنکھ کھولی تو پہلے اپنے والدین پھر خاندان قبیلےکےبعد چھوٹے چھوۓ گروہوں آبادیوں اور اپنے معاشرے سے متعارف ہوا۔جوں جوں نسل انسانی بڑھتی گئی نئی آبادیاں قصبے اور شہر بساۓ گئے۔بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ نئے نئے مسائل پیدا ہوۓ اور نئی نئی ضروریات کا سامنا کرنا پڑا۔جن کے حل کے لیئے باشعور انسانوں نے آپس میں مل بیٹھ کر کچھ قانون بنا لیئے۔ تاکہ ان پر عمل پیرا ہو کر ایک مہذب اور منظم معاشرت کی ابتدا کی جاۓ۔قدیم تہذیبوں کی تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ گوقدیم انسان کے پاس جدید سائنس اور ٹیکنالوجی اور دیگر علوم تو نہ تھے اور نہ ہی کوئی لکھا ہوا لمبا چوڑا قانون اور سینکڑوں افراد پر مشتمل قانون ساز ادارےتھے۔مگر اپنےاس ناخواندہ و نیم خواندہ معاشرے کو چلا نے کے لیئے جو لگے بندھے اصول وضع کیے گئے تھے ان پر نہ صرف عمل درآمد ہوتا تھا بلکہ ان مجرموں اور ان اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا بھی ملتی تھی۔لوگ ملاوٹ سے پاک خالص غذا کھاتے تھے جس کی غالب وجوحات یہ تھیں کہ لوگ اپنے اپنے مذاہب کی اخلاقیات کی پاسداری بھی کرتے تھے اوراپنے معبودوں کا خوف بھی رکھتے تھے۔ دوسری وجہ ان کی سادگی تھی وہ ایک تو ملاوٹ کے طریقوں سے نا آشنا تھے اور دوسرا دولت کی حرص و ہوا سے دور تھے۔قدرتی ماحول میں ان کی جسمانی ساخت، صحت اور نشوونما بھی بہترین تھی۔
پھر جدید طریقہ تعلیم آیا ۔ نئے نئے علوم آۓ۔ملکوں کی اپنی اپنی حدود اور ان کے اندر حکومتیں اور محکمے بن گئے۔ہر بندہ اپنے انداز میں مذہب کی تشریح اور توضیع بیان کرنے لگا ۔قوا نین کو باقاعدہ لکھا ،بار بار مٹایا گیااور اس میں موشگافیاں ڈھونڈ کر اس سے بچ نکلے کے راستے تراشے گئے۔ اور اس کام کے ماہرین آ گئے۔ملاوٹ کے طریقے اور بدعنوانی کی راہیں ہموار ہو گئیں۔پرانی بود وباش کی جگہ رہن سہن کے جدید طریقے بھی دھونڈے گئے۔ گناہوں کے نئے نئےطریقے ایجاد ہوۓ اور پھر ہم نئی نئی بیماریوں میں گھر گئے۔
یہ دور جدت کا دور ہے۔ ہمساۓ کی خبر گیری کے بجاۓ دوسرے ممالک کے پر فضا مقامات پر جانا آسان ہے چاند تک تو رسائی ہے۔دنیا اب گلوبل ویلیج ہے۔ رابطے تیز ترین مگر لوگ ایک چھت کے نیچے آپس میں کٹ چکے ہیں۔
الغرض جدید انسان جدید ترین مسائل میں گھر چکا ہے چونکہ قدرتی ڈگر سے پھر چکا ہے۔نہ خالص غذا ہے نہ ہوا ہے۔ نہ کسی کی عزت ہے نہ حیا ہے۔ایک کے بعد دوسری وبا ہے۔ مفاد کی جنگ ہے اور غریب پر زمین تنگ ہے۔طاقتور طبقہ منہ زور ہے اور قانون بچارا کمزور ہے۔حاکم مغرور اور مخمور ہے اور عوام مجبور ہے۔ہر طرف بس افراتفری اور شور ہےکس کس کو کہیں کہ وہ چور ہے۔مل کر لوٹتے ہیں پھر پھوٹتے ہیں۔دلدل میں دھنس گئے ہیں ہم ان میں پھنس گئے ہیں۔۔کاش مقدر جاگ جائیں ہم کہیں بھاگ جائیں۔