نعیم صادق جاگو پاکستان

پاکستان کے پاس ڈالر ختم نہیں ہوئے، اس میں خیالات، تخیل، اتفاق اور عقل و فہم ختم ہو چکی ہے۔ لامحدود اختیارات اور مواقع پاکستان کے گہری نیند سے اٹھنے کے منتظر ہیں۔ توانائی کی بچت اور درآمدات کو روکنے کے لیے متعدد ایسےفوری اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن کے بغیر ہم رہ سکتے ہیں۔پیٹرول اور مائع گیسوں کی درآمد جو ہماری درآمدات کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اسے بچت کے متعدد اقدامات سے نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں تمام سرکاری اہلکار وں سے واپس لےلیں اور ان کاروں میں سے صرف 5فیصدکو ہر محکمے کے سنٹرل کار پولز میں رکھیں — یہ کاریں صرف اس وقت استعمال کی جائیں جب خاص طور پر کسی مخصوص سرکاری کام کے لیے درخواست کی گئی ہو۔ اگر پوری مہذب دنیا ان اصولوں پر عمل کر سکتی ہے تو پاکستانی قوم کیوں نہیں کرسکتی ،جوڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی ہے! تمام وفاقی اور صوبائی وزراء، ارکان پارلیمنٹ، ججز اور سول اور فوجی حکام کے لیے فیول استحقاق جو 60 سے 600 لیٹر ماہانہ ہے، اس استحقاق کو مکمل طور پر ختم کریں۔ توانائی کے تحفظ اور بحران پرقابو پانے کےلیے بھی متعدد اقدامات شروع کیے جا سکتے ہیں۔ شام 6 بجے تمام بازار بند کر دیں۔ سرکاری دفاتر سے تمام ائیرکنڈیشنر اور ٹی وی سیٹ واپس لے لیں۔ اس سے بجلی، وقت اور توانائی کے 10 ارب روپے سالانہ کے بلوں کی بچت ہو سکتی ہے۔ ہفتہ میں چار دن کام سے تمام سرکاری یوٹیلیٹی اخراجات میں 15فیصداضافی بچت لائی جاسکتی ہے۔ 1000cc سے اوپر کی گاڑیوں کو گاڑی کے سائز کے تناسب سے ٹول ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔ یہ کام مرکزی سڑکوں اور چوراہوں پر ایسے کیمرے لگا کر آسانی سے کیا جا سکتا ہے جو ہر گزرنے والی گاڑی کے QR کوڈ کو پہچانتے ہیں اور خودکار انوائس جنریشن کے لیے معلومات کو منتقل کرتے ہیں۔ تقریباً 15 ہزار افغان شہری روزانہ پاکستان سے افغانستان جاتے ہیں۔ ہر شخص کو قانونی طور پر ایک ہزار ڈالرلے جانے کی اجازت ہے۔ اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ بہت سے لوگ مجاز کوٹے سے کہیں زیادہ ڈالر اسمگل کرنے کا انتظام کرتے ہیں، پاکستان کو ہر روز آسانی سے 15سے30 ملین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان ڈالر لے جانےکی اجازت کو ختم کرکے اور افغان شہریوں کو صرف افغان یا پاکستانی کرنسی واپس لے جانے کی اجازت دے کر اس رقم کو بچا سکتا ہے۔ تمام کمرشل منی ایکسچینج آؤٹ لیٹس کو بند کرکے، صرف بینکوں کے ذریعے ہی غیر ملکی کرنسی کے تبادلے اور منتقلی کی اجازت، بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کے لیے دو ہزار ڈالر باہرلے جانےکی اجازت میں کمی کرنا، اور ہنڈی کے بجائے بینکنگ چینلز کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے لیے موثرترغیبی اسکیمیں بنانے سے پاکستان میں ڈالر کی دستیابی میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔ . ایک باشعورحکومت درآمدی متبادل کے متعدد پروگرام شروع کرسکتی ہے،ایسے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ 4 بلین ڈالر مالیت کے پام آئل کی سالانہ درآمد کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ گھر میں تیار کیے جانے والے متعدد تیل، جیسے سورج مکھی کا تیل، سرسوں کا تیل، سویا بین کا تیل، چاول کی چوکر کا تیل، کینولا کا تیل، مکئی کا تیل، کپاس کے بیجوں کا تیل ، تل کا تیل وغیرہ کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی بازار گھریلو استعمال کے چینی برقی آلات جیسے الیکٹرک ہیٹر، کیتلی، ٹوسٹر، ٹولز، ڈرل مشین وغیرہ سے بھر گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اشیاء ایسی ہیں جومقامی طور پر تیار کی جا سکتی ہیں۔ اس درآمد کو روکنے سے نہ صرف فاریکس کی ایک بڑی رقم کی بچت ہوگی بلکہ مقامی صنعت کو بھی فروغ ملے گا۔ پورٹ قاسم، حب اور ساہیوال پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے ہر سال 4 سے 5 بلین ڈالر مالیت کے کوئلے کی درآمد کو بڑی حد تک تھر کےمقامی کوئلے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ہر سال 2 سے 3 بلین ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔ پاکستان ہر سال 20 لاکھ ٹن سے زیادہ ہاٹ رولڈ اسٹیل کوائل درآمد کرتا ہے۔ اس پروڈکٹ کو مقامی طور پر تیار کرنے اور فی ٹن 150 ڈالرسے زیادہ کی بچت کرنے کے لیے ہمارے پاس لوگ اور ٹیکنالوجی دونوں موجود ہیں۔ صرف اس ایک پروڈکٹ پر ہمیں ہر سال 300 ملین ڈالرکی بچت ہوسکتی ہے۔ بس تخیل کی کمی اور بیوروکریسی کی زیادتی ہماری ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہے ۔ پاکستان ایک امیر ملک بن سکتا ہے اگر وہ اپنے لاڈ لے امیر طبقےسے لاڈ پیار کرنا بند کر دے۔ عقل سے ماوراء 76 وزراء، مشیروں، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی پر مشتمل ٹرین کا بوجھ پاکستان کو ہر ماہ 380 ملین روپے کے افلاس میں ڈبودیتا ہے۔ کفایت شعاری کے سب سے پہلے اقدامات میں سے ایک یہ ہونا چاہیے کہ ان فری لوڈرز (وزراء اور مشیروں ) کی تعدادکو 15 سے کم کر دیا جائے۔ سرکاری اہلکاروں کو درجن سے زائد الاؤنسز ، جو ان کی بنیادی تنخواہ سے چھ سات گنا زائد ہوتے ہیں، جوڑ کر دی جانے والی چھپی ہوئی تنخواہوں کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ . یہ تجویز ہے کہ تمام سرکاری اہلکاروں کے تمام قسم کے الاؤنسز اور استحقاق ختم کر دیے جائیں، اور ہر فرد کو صرف ایک جیسی شفاف تنخواہ ملنی چاہیے، جس میں کوئی پوشیدہ مراعات نہیں ہوں۔ ایسی کفایت شعاری کا سب کی طرف سے خیر مقدم کیا جائے گا، جس کا اوپر سے آغاز کیا جائے۔ اگر پاکستان واقعی ڈوب رہا ہے، جیسا کہ اس میں کوئی شک نہیں، تو پھر کسی بھی سرکاری اہلکار ، سول، فوجی یا عدالتی، کی تنخواہ چارلاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح پنشن کی حد بھی ڈیڑھ لاکھ روپے ہونی چاہیے، اس میں کوئی دوسری سہولت یا استحقاق نہیں ہونا چاہیئے۔ اخراجات کو کم کرنے کی کوئی بھی کوشش اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک کہ تمام حکومتی اداروں بشمول مسلح افواج کو غیر معمولی کفایت شعاری کے اقدامات، رسمی اور غیر آپریشنل اخراجات کو کم کرنے اور رضاکارانہ طور پر اپنے بجٹ میں کم از کم 10 فیصد کمی لانے کا کام نہ سونپا جائے۔ پاکستان اپنی ٹیکس وصولی کی صلاحیت کو محسوس کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ صرف ایک اعشاریہ چار فیصد لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں، جن میں سے ایک تہائی کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے، جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، 75 سال سے ایف بی آر آدھے صفحات پر مشتمل ایک سادہ انکم ٹیکس فارم ڈیزائن کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ جسے ہر شہری با آسانی ٹیکس وکیل کو 20 ہزار روپے فیس ادا کیے بغیر بھر سکتا ہو۔یہ ایک آسان ساقدم جو ایف بی آر کی سمجھ سے بالاتر ہے، 10 فیصد سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لا سکتا ہے۔ زراعت، دولت، وراثتی یا تحفے میں دی گئی جائیداد اور غیر منقولہ جائیداد سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس نہیں ہے، اسےفوری طور پرٹیکس کے نیٹ میں شامل کیا جائے۔ سگریٹ، سافٹ ڈرنکس، انرجی ڈرنکس اور میٹھے مشروبات پر ٹیکس کو دوگنا کرنے سے 200 ارب روپے باآسانی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ’نان فائلر‘، ایک منفرد مضحکہ خیز تصور ہےجو ٹیکس سے بچنے کے کلچر کو فروغ دیتا ہے،اسے مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ جائیداد کی خریداری، گاڑی کی رجسٹریشن، غیر ملکی سفر، ماہانہ 10 ہزار روپے سے زیادہ بجلی کے بل، بیرون ملک رقم بھیجنا یا 50ہزارروپے سے زیادہ کا لین دین کرنے والا اگر کوئی فرد ،”نان فائلر” ہو تو اس پر پابندی ہونا چاہیئے۔ ایک ایسی لاپرواحکومت کا اندازہ لگائیں جس کا اپنی سویلین وفاقی حکومت چلانے کے لیے سالانہ اخراجات 480 ارب روپے ہیں، لیکن وہ اپنے سب سے لاڈلے کارپوریٹ سیکٹر کو 700 ارب روپے سبسڈی کے طور پر فراہم کرتی ہے۔ یہ سبسیڈی اب ختم ہونا چاہیے۔ پاکستان کو پائپ گیس کی قیمت کو اس کی حقیقی قیمت یعنی ایک ہزارروپے فی ایم ایم بی ٹی یو پرلانی چاہیئے۔ مصنوعی طور پر 650 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو پر رکھنے سے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن دونوں پر پندرہ سو بلین روپے سے زیادہ کے مالیاتی قرضے کا بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جائیداد کی ہر خرید و فروخت پر 5فیصدکی شرح سے اور اس کی صحیح مارکیٹ ویلیو پر ٹیکس لگانا چاہیے۔ ہر رجسٹرار کے دائرہ اختیار میں حکومت، یونین کونسلز، اسٹیٹ ایجنٹس، آرکیٹیکٹس اور شہریوں کے نمائندوں پر مشتمل بورڈ کو جائیداد کی صحیح مارکیٹ ویلیو کی تصدیق کرکے دستخط کرنے چاہئیں۔ ان اقدامات پر عمل درآمد کرکے پاکستان چھ ماہ کے اندر اس خود ساختہ بحران سے خود کو نکال سکتا ہے۔ جو چیز پاکستان کوتیزی سےترقی اور اس کی معیشت کی بحالی سے روک رہی ہے وہ اس کی اپنی حکمران اشرافیہ کی نااہلی اور بے حسی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ —