امید کا مرکز ۔ عام پاکستانی نعیم صادق

نفرت اور دشمنی کے انجن جب دوڑتے ہوئے تھک جائیں، ہاپنے لگیں اور اپنی زہریلی بھاپ سے ختم ہو جائیں گے۔تو جو کچھ پیچھے رہ جاتا ہے وہ سلگتا ہوا دھواں اور راکھ ہے۔ جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے ان گھوڑوں پر شرط لگائی ہے جو اقتدار کے لیے اپنی بے عقل دوڑ میں بھاگ رہے تھے۔ جب امید کی آخری ٹمٹماتی شمعیں بجھ چکی ہوں اور جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم راستے کے اختتام پر پہنچ چکے ہیں، تو ہم پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ ہمارے پاس لعنت بھیجنے یا الزام لگانے کے لیے کوئی نہیں بچا ہے، سوائے اپنی ذات کے۔

دل شکستہ، تھکے ہوئے اور بے بس، ہم یا تو اس اندھے راستے پرپہنچ چکے ہیں یا جلد ہی اس خوفناک منزل پر پہنچ جائیں گے۔ جہاں نسوؤں، ندامت، نوحہ اور الزام تراشیوں کی کوئی مقدار اس کا مداوا نہیں کرسکے گی۔ شاید تب ہم یہ سمجھ سکیں کہ نفرت اور دشمنی پر ملک تعمیر نہیں کیئے جاسکتے۔ آگے بڑھنے کا مطلب ہے کہ ماضی کی غلط کاریوں سے اجتناب اور تبدیلی اور اصلاح کے سائنسی عمل کی پیروی کے لیے آمادگی ظاہر کرنا۔ یہ رویہ ہمارے باشعور، سوچ رکھنے والے اور ذہین شہریوں کو اکٹھا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ ہم سب سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم انسانیت اور عاجزی کے ساتھ ایک دوسرے کو سننا اور بات کرنا شروع کریں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم کم از کم نصف درجن بنیادی ضروری اصلاحات پر متفق ہوں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے حالات سے مطابقت والے دیسی، تخلیقی اور غیر روایتی حل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر میں یہ ہماری سب سے کمزور کڑی گورننس کے ایک موثر نئے ڈھانچے پر متفق ہونے کا مطالبہ کرتا ہے –

گورننس کے کم از کم سات اہم پہلو ہیں جو فوری اور اجتماعی ردعمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:

a) آبادی کو کنٹرول کرنے والی ایک ایسی قومی آرگنائزیشن بنانا جس کے مینڈیٹ اور اختیار میں یہ بات شامل ہوکہ آبادی میں غیر پائیدار اور تباہ کن اضافے کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری اقدامات کا تعین کیا جائےاور نافد کیا جائے۔ جس کا مقصد شرح آبادی فرٹیلیٹی ریٹ (TFR) کو کنٹرول کرنا ہو اور اسے دو فیصد سے زیادہ بڑھنے نہ دے۔

b) ملک کے 70 ملین ورکرز کے خلاف معاشی استحصال کو روکنا جو EOBI اور سوشل سیکیورٹی کے تحفظ کے بغیر کم از کم قانونی اجرت سے محروم ہیں، اور بہت کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ اور یہ سب سے زیادہ مظلوم پیشوں جیسے کہ صفائی کے کارکنوں، پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز، مائن ورکرز اور پیٹرول پمپ کے ملازمین سے شروع ہونا چاہیے۔

c) جدید ڈیجیٹل طریقوں کو اپنایا جائے۔ ‘کام میں رکاوٹ پیدا کرنے والے فائلوں

کا انبار لگانے والے افسر شاہی کے جال کو ختم کیا جائے۔

d) ایسے پروگرام متعارف کروانا جو ٹیکنالوجی، مراعات، بہتر اسکول گورننس اور TCF اور ‘Teach for Pakistan’ جیسے پروگراموں کا استعمال کرتے ہوئے اسکولوں کے اندراج کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

e) ایف بی آر کی اصلاح کرنا، زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانا اور بالواسطہ ٹیکسوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا، جبکہ افراد کی تعداد میں یکسر اضافہ کرنا اور انہیں براہ راست ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس میں ادا کرنے کی رقم کو بڑھانا۔ سگریٹ اور سافٹ ڈرنکس پر ڈیوٹی اور ٹیکس کو دوگنا کرنا، بازار کے اوقات کو شام 6 بجے تک محدود کرنا، لگژری آئٹمز کی درآمد کو ختم کرنا، اشیا کی اندرون ملک اسمگلنگ کو روکنا اور ڈالر کا بیرونی بہاؤ وہ اقدامات ہیں جو حکومت اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے نافذ کر سکتی ہے۔ e) ایف بی آر کی اصلاح کرنا، زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانا اور بالواسطہ ٹیکسوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا، جبکہ ٹیکس دہندہ افراد کی تعداد میں اضافہ کرنا اور براہ راست ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کی رقم کو بڑھانا۔ سگریٹ اور سافٹ ڈرنکس پر ڈیوٹی اور ٹیکس کو دوگنا کرنا، بازار کے اوقات کو شام 6 بجے تک محدود کرنا، لگژری آئٹمز کی درآمد کو روکنا، اشیا کی اندرون ملک اسمگلنگ کو روکنا اور ڈالر کی بیرون ملک اسمگلنگ اور ترسیل ایسے اقدامات ہیں جو حکومت اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے نافذ کر سکتی ہے۔

f) عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے فوج کے تازہ ترین عزم کو بیک وقت بڑے پیمانے پر پورے ملک کوہتھیاروں سے پاک کرنے کی کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے مکمل حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ پاکستان اس وقت تک کبھی بھی محفوظ یا مستحکم نہیں ہو گا جب تک اس ملک کے 43 ملین بندوقوں والے عسکریت پسندوں، مشتعل شہریوں، ڈاکوؤں اور شہری غنڈوں کے ہاتھوں سے یہ ہتھیار نہ لے لیےجائیں۔ ہم برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں لائسنس یافتہ ہتھیاروں کی واپسی اور غیر لائسنس یافتہ ہتھیاروں کی واپسی کی مہم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

g) پاکستان کے بجٹ کا زیادہ تر حصہ کسی خدمت کی فراہمی میں نہیں صرف ہوتا۔ بلکہ یہ تنخواہوں، مراعات، پنشن، دفاتر، سفر، تفریح، علاج معاالجہ، گاڑیاں، ایندھن اور دیگر متعدد مشکوک الاؤنسز کے ذریعے اپنے ہی سرکاری اہلکاروں کی ناز برداریوں میں خرچ ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ ہماری بہت سی غیر پیداواری وزارتوں اور محکموں کو بند کر دیا جائے، جبکہ باقی کا سائز گھٹا کر نصف کر دیا جائے۔ سرکاری افسران کے زیرتصرف پیٹرول سے بھری ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کو واپس لے کر فروخت کیا جانا چاہیے، اس رقم کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے۔ اسی طرح دفاعی اداروں سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے غیر آپریشنل اخراجات میں کمی اور بچت متعارف کرائیں۔

’’تعمیر پاکستان‘‘ منصوبے کے لیے کوئ بھی دوسرا ملک نقشے اور سامان لے کر نہیں آئے گا۔ نہ ہی ایسی کوئی امداد آنے کا امکان ہے۔ ہمارے حکمران اور امیر اشرافیہ اس تباہی کے معمار ہیں۔ ان میں اصلاحی عمل میں شامل ہونے کی نہ تو صلاحیت ہے، اور نہ ہی انھیں اس کی کوئی خواہش ہے۔ ہماری واحد امید عام پاکستانیوں سے ہے، کہ وہ اٹھیں اور ایک نئے اور ترقی پسند پاکستان کی تعمیر کا آغاز کریں۔