غزل ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

حسن پر اپنے نہ کچھ مغرور ہو
تم بیوٹی پارلر سے حور ہو
مصرع طرح بنا نہ لکھ
سکے
کوی شاعر اتنا مت مجبور ہو
مت اٹھاو تم مرا مصرعہ میاں
کیا ضروری ہے کہ تم مزدور ہو
غصہ اتنا بھی نہیں اچھا کہ تم
موسم گرما میں فل تنور ہے
پہلے کھاو ملک اور پھر بھاگ جاو
بھاگ جاگیں یوں اگر مفرور ہو
اک وزیر اعظمی مطلوب ہے
شرط یہ ہے وہ کوئی مفرور ہو
فیصلہ ٹہرا ہے اب کھل کر لڑیں
شیر کیوں میسور کا محصور ہو
اب موبایل ہی مرا جاسوس ہے
تم مری نظروں سے کتنی دور ہو
مغفرت کا ایک نسخہ یہ بھی ہے
عقد چوتھا کر لو تو مغفور ہو
شاعری میں آو دنگل ہم کریں
یہ اودھم اچھی ہے گر منظور ہو
طرحی فورم سے ہر شاعر کا اک
شعر سرقہ کرلو اور مشہور ہو
کیون نہ امریکہ کی کو لونی بنیں
کیوں نہ مظہر اب یہی دستور ہو

اپنا تبصرہ بھیجیں