یہ رہ گزر کی دھول یہ پتھر ہی لے چلیں سید مظہر عباس رضوی

روح ناصر کاظمی سے معذرت کے ساتھ

یہ رہ گزر کی دھول یہ پتھر ہی لے چلیں
کچھ یاد گار شہر ستمگر ہی لے چلیں
مہنگائی اس قدر ہے کہ سوچا ہے اب یہی
سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں
دل اس کا ہو لہو جو ہو تحریر سرخ رو
خط خوں کشیدہ کرنے چقندر ہی لے چلیں
بالیدگی نہ روح میں ہو جسم میں سہی
تم گر نہیں کچن سے یہ گاجر ہی لے چلیں
گردن پہ اپنی خون نہ آئے رقیب کا
گھر کے پلے یہ سانڈ سے مچھر ہی لے چلیں
وعدے نہ کام آئیں گے لیڈر ترے کبھی
کھمبوں پہ لٹکے تیرے یہ بینر ہی لے چلیں
وہ سٹ پٹاے پر وہ ہمیں پیٹ ہی نہ پائے
اس کی پٹا کے آج منگیتر ہی لے چلیں
پہچانے کون سنبل و سوسن کنول گلاب
تحفے. میں اس کے مکسڈ فلاور ہی لے چلیں
چھٹی اگر ہے کوچہ دلدار میں تو کیا
اتوار کے بجائے سنیچر ہی لے چلیں
وہ خوا مخواہ بھوت سمجھ بیٹھیں آپ کو
دھوکا دہی کو سرخی و پوڈر ہی لے چلیں

مظہر مشاعرے کا یہ حاصل حصول ہیں
نقد سخن نہیں تو ٹماٹر ہی لے چلیں

ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی

اپنا تبصرہ بھیجیں