کہی ان کہی وجیہ احمد صدیقی

ساڑھے تین سال سے تحریک انصاف کے ساتھ رہنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت سے علیحدگی کا بر موقع اعلان کیا ۔ متحدہ قومی موومنٹ کا دائرہ اثر سندھ کے شہری علاقے ہی ہیں اگر یہاں اسے کنٹرول نہیں حاصل ہوتا ہے تو اس کی سیاست ناکام رہتی ہے ۔ پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے متحدہ کی اسی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے متحدہ کو کراچی اور حیدرآباد کی بلدیات کی ایڈمنسٹریٹر شپ کی پیش کش کی ہے ۔تحریک انصاف کی جانب سے متحدہ کو سندھ کی گورنر شپ اورپورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت کی پیش کش کی گئی تھی ۔ لیکن سندھ کے دوبڑے شہروں کی بلدیات کا انتظام اور بلدیات کی صوبائی وزارت وفاقی حکومت کی پیش کش کے مقابلے میں زیادہ پر کشش ہے ۔پی ٹی آئی متحدہ کو کراچی اور حیدرآباد کا کنٹرول تو نہیں دے سکتی ۔اہل کراچی نے تحریک انصاف کو متحدہ قومی موومنٹ کا متبادل سمجھ کر کراچی سے قومی اسمبلی کی14 سیٹیں اور صوبائی اسمبلی میں 30 سیٹیں جیت کر دیں ۔ لیکن اہل کراچی کو وفاق کی جانب سے کچھ نہیں ملا۔ گرین لائن بس منصوبہ بھی نواز شریف حکومت کا اہل کراچی کے لیے تحفہ تھاجس کے افتتاح کے موقع پر اسے پی ٹی آئی کا کارنامہ قرار دینے کے لیے اس کے جھنڈے گرین لائن کے ٹریکس پر لہرا دیے ۔عمران خان نے کراچی کے لیے 111 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن اس منصوبے کی ابتداء ہی نہیں کی گئی۔اس پیکج میں سے ایک روپیہ بھی نہیں خرچ کیا گیا۔بلکہ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر کراچی کے شہریوں کے گھروں اور دکانوں کا گرایا گیا۔تحریک انصاف کی اس کارکردگی کے باوجود متحدہ نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مقتدر حلقوں کی ہدایت پر متحدہ وفاقی حکومت میں شامل ہوئی تھی اور اس نے انہی کی ہدایت کے پیش نظر سند ھ میں متحدہ نے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد متحدہ اس بات کا انتظار کررہی تھی کہ اسے مقتدر حلقوں کی جانب سے اشارہ ملے تواور وہ اس بارے میں اپنی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کرے ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کے دوران متحدہ رہنمائوں کو مسلسل مقتدر حلقوں کی جانب سے ٹیلی فون کا انتظار رہا ۔آخر کار متحدہ نے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیااور اب تک کی اطلاعات کے مطابق متحدہ کے دو وزیر استعفیٰ دے چکے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے اس بارعدم اعتماد کے جمہوری عمل میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کو دیکھتے ہوئے متحدہ نے پیپلزپارٹی کی پیش کش قبول کرلی ہے ۔ پیپلز پارٹی سندھ کی حکمران جماعت ہے اس کے ساتھ مل کر ہی متحدہ شہری علاقوں کو ہی کچھ دے سکتی ہے ۔دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے پیپلز پارٹی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی توثیق کر دی۔موجودہ ملکی سیاسی صورت حال پر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس کنوینر خالد مقبول صدیقی کی زیر صدارت اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز میں ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدے کے نکات کا جائزہ لیا گیا۔ایم کیو ایم رہنما سید امین الحق کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔امین الحق نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے وزراء نے اپنے استعفے وزیراعظم عمران خان کو ارسال کر دیے ہیں۔یاد رہے کہ رات دیر گئے ایم کیو ایم پاکستان اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں دونوں جانب سے معاہدے کی منظوری دی گئی۔ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف کے درمیان علیحدگی کی وجوہات سامنے آ گئی ہیں۔ذرائع رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کے سامنے تین مطالبات رکھے، یہ تینوں مطالبات پورے نہیں کیے گئے۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے دفاتر کھلوانے کا مطالبہ کیا مگر نہیں کھولے گئے، ایم کیو ایم نے اپنے 100 سے زائد لاپتہ افراد کی واپسی کا کہا لیکن اس پربھی پیشرفت نہ ہو سکی۔ذرائع ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا بتانا ہے کہ ہم پر مختلف دہشت گردی کے مقدمات تھے جو ختم نہیں کیے گئے، ان تین مطالبات پر عمل نا ہونا حکومت سے علیحدگی کی وجہ بنی۔رابطہ کمیٹی ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم سندھ میں پیپلز پارٹی کی اتحادی بنے گی، ایم کیو ایم کو بلدیاتی قانون میں تبدیلی، پبلک سروس کمیشن میں نمائندگی دی جائے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم، مردم شماری اور ملازمتوں پر بھی ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں۔خیال رہے کہ رات گئے ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد آج ایم کیو ایم کے دو وفاقی وزراء بیرسٹر فروغ نسیم اور سید امین الحق نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ایم کیوایم کی جانب سے علیحدگی کے بعد قومی اسمبلی میں عمران خان حکومت کے نمبرز 164 تک رہ گئے ہیں ، جبکہ اپوزیشن کی تعداد177 تک پہنچ گئی ہے ۔