بھارت کا اگلا وزیر اعظم سادھویوگی ادیتا ناتھ تحقیق وتجزیہ : وجیہ احمد صدیقی

تحقیق وتجزیہ : وجیہ احمد صدیقی
گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا نریندر مودی کو یہ انعام ملا ہے کہ وہ بھارت کے وزیر اعظم بنادیے گئے ۔نریندر مودی کے بعدبھارتیہ جنتا پارٹی میں اس وقت اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ مستقبل کی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں ۔یوگی ادتیہ ناتھ ایک ایسا سادھو ہے جس کی شہرت مسلم دشمنی ہے ۔اب بی جے پی کے فیصلوں کے مطابق اسے موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا جانشین بنایا گیا ہے ۔20 کروڑ کی آبادی والے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر 2017 میں یوگی ادتیہ ناتھ کی تقرری چونکا دینے والا فیصلہ تھا ایک ایسی ریاست میں اس کا تقرر جہاں مسلمانوں کی آبادی ہر پانچ میں ایک ہے یعنی وہاں ہر پانچواں شخص مسلمان ہے ۔یوگی ادتیہ ناتھ نے ہر الیکشن میں ہندووں کے مذہبی جذبات کو چھیڑا ہے اورکہا ہے کہ یہاں مقابلہ 80 فیصداور20 فیصد میں ہے ۔یعنی اترپردیش جہاں 80فیصد غیر مسلم اور 20 فیصد مسلمان رہتے ہیں ۔اس نے مسلم ووٹروں کو یکسر مسترد کردیا ہے ۔یہاں تک کہ اس نے اتر پردیش کے مسلمانوں پر اپنے ایک ٹوئٹ میں الزام لگایا کہ وہ جناح کی پوجا کرتے ہیں ،انہیں پاکستان پیارا ہے جبکہ ہم ماں بھارتی ( بھارت) پر اپنی جان نچھاور کرتے ہیں۔49 سالہ اجے سنگھ بیشت ادیتہ ناتھ کا باپ فارسٹ رینجر تھا اور اس کے سات بھائی بہن ہیں ۔یونیورسٹی میں اس نے ریاضی کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اورآر ایس ایس ( راشٹریہ سویم سیوک سنگھ)کے اسٹوڈنٹ ونگ کا لیڈر بن گیا ، گورکھپور سے تعلق ہے ۔ گریجویشن کرنے کے بعد یہ گورکھ ناتھ مندر کا پجاری بن گیا۔گورکھ ناتھ مندر بھارت میں مافوق الفطرت معاملات کے لیے مشہور ہے ۔مندر کا پجاری بننے کے ساتھ ساتھ ادتیہ ناتھ سیاست میں بھی حصہ لینے لگا 1998 میں جب وہ محض 26سال کا تھا وہ پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوگیا ۔ اس نے انتہا پسند متعصب ہندو نوجوانوں پر مشتمل ایک مسلح تنظیم بنائی تھی جس کا نام “ہندو یو اواہنی یا باہنی “تھا۔اس تنظیم نے مسلمانوں پر گائے ذبح کرنے کے الزامات لگائے اورمسلمان لڑکوں سے شادی کرنے کی خاطر ہندو سے مسلمان ہونے والی لڑکیوں کی زندگی اجیرن کرنے لگے اور اس عمل کو ” لو جہاد ” کا نام دیا گیا ۔یہاں تک الزام لگایا گیا کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کو جبراً مسلمان کرتے ہیں ۔اترپردیش میں گائے کے ذبیحے پر پابندی ہے ۔یوگی ادتیہ ناتھ اس لیے بھی وزیر اعظم بن سکتا ہے کہ اس کے خلاف مختلف عدالتوں میں کئی فوجداری ( کرمنل ) مقدمات درج ہیں ۔فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کے جرم میں 2007 میں اس نے 11 دن جیل میں گزارے ۔اپنی ایک تقریر میں وہ یہ کہہ چکا ہے کہ “اگر ایک مسلمان ایک ہندو کو قتل کرتا ہے تو ہم اس کے بدلے میں 100مسلمانوں کو قتل کریں گے۔اس پر اس سے باز پرس کی جاتی اس کے بجائے اسے گورکھ مندر کا چیف پجاری بنا دیا گیا۔اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اس نے کم ازکم 100 افراد کوجرائم پیشہ کہہ کر ان کا قتل کرایا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں یا دلتوں کے لیڈرز تھے ۔لیکن ابھی تک یہ شخص نریندر مودی کی سفاکیت کی منزل نہیں طےکرسکا ہے۔بھارت کے ایک مسلمان استاد پروفیسر نثار انصاری کا کہنا ہے کہ “2002میں جو ہوا اسے میں فسادات نہیں کہتا بلکہ میں اسے نسل کشی مانتا ہوں، مودی کے رول سے کون واقف نہیں ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ وہ اب بھی مسلمانوں کو ایک خطرے کے طور پر پیش کر کے اپنے آپ کو ایک خاص طبقے کا محافظ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی باتوں سے تو مسلمانوں میں غیر یقینی بڑھ جاتی ہے “
مخصوص قسم کا زعفرانی رنگ کا لباس پہننے والے یوگی ادیتیہ کا اصل نام اجے موہن بشٹ ہے۔ لیکن یوگی بننے یعنی دنیاوی آسائشوں سے کنارہ کشی اختیارکرنے کے بعد انہوں نے اپنا نام بدل کر یوگی ادیتیہ ناتھ رکھ لیا اور ستمبر2014 ء سے گورکھ ناتھ مندر کے ہیڈ پجاری ہیں۔بھارت کے سیکولر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ” ”وزیر اعلٰی کے طور پر یوگی کا دوبارہ اقتدار میں آنا بھارت میں سیکولرزم کے نظریہ کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوگا۔ انہوں نے ہمیشہ اقلیتوں کو نشانہ بناکر مقبولیت حاصل کی ہے…اس لیے ان کی کامیابی سے دیگر لیڈروں کو بھی ایسا کرنے کا حوصلہ ملے گا۔
ادیتیہ ناتھ نے اپنی پانچ سالہ مدت کار کے دوران الہٰ آباد اور مغل سرائے سمیت متعدد شہروں کے نام تبدیل کرکے پریاگ راج اور دین دیال اپادھیائے جیسے ہندونام رکھ دیے۔ انہوں نے ”لو جہاد‘‘ کے خلاف قانون بھی نافذ کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔بہرحال ادیتیہ ناتھ بھارت میں ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کے مقبول رہنما ہیں اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ادتیہ ناتھ کے اندر مسلمانوں کے خلاف کتنا زہر بھرا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی بی سی کو انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں ادتیہ نے کہا کہ ” لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جو لوگ، جو مسلمان آج سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں یہ وہ مسلمان ہیں جن کے اہل خانہ نے جب ملک تقسیم ہوا تو انہوں نے ایسے ملک نہ جانے کا فیصلہ کیا جو مذہب کی بنیاد پر بنا تھا۔۔اس پر ادتیہ ناتھ نے جواب دیاکہ” انہوں نے کوئی احسان نہیں کیا۔ انہوں نے ہندوستان پر کوئی احسان نہیں کیا تھا۔ ملک کی تقسیم کی مخالفت کی جانی چاہیے تھی۔ بھارت کے بٹوارے کی مخالفت کی جانی چاہیے تھی۔ آپ کو ان چیزوں کی حمایت کرنی چاہیے جو ہندوستان کے مفاد میں ہیں۔ لیکن جو ہندوستان کے خلاف ہیں ان کی سخت مخالفت کی جانی چاہیے ۔”اس نے اسی انٹرویومیں شاہین باغ میں پولیس کےگولی چلانے پر اور بی بی سی کے اس سوال پر کہ پولیس اہلکاروں نے ہی کہا کہ آپ لوگوں کو پاکستان جانا چاہیے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟ یہ بھی کہا کہ ” جس نے بھی کہا اس کی وجہ ضرور رہی ہوگی۔ اگر آپ پاکستان کی حمایت میں نعرے بلند کرتے ہیں تو ہندوستان میں رہتے ہوئے آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ پاکستان پرست دہشت گرد بولی سے نہیں مانیں گے۔ پاکستان سے دراندازی کرکے بھارت آنے والا شخص گولی سے مانے گا، بولی سے نہیں۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ ماضی میں کئی بار “محبت کے عظیم شاہکار” تاج محل سے اپنی نفرت کا اظہار کر چکے ہیں۔ ابھی حال میں انہوں نے کہا تھا کہ اب جب کسی ملک کے سربراہ حکومت یا مملکت انڈیا کے دورے پر آتے ہیں توانہیں تاج محل کا نمونہ تحفے میں نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ غیر ہندوستانی ہے اور ملک کی عکاسی نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اب اہم شخصیات کو ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا تحفے میں دی جاتی ہے۔آدتیہ ناتھ ایک ہندو سادھو ہیں وہ ہندوتوا کی تحریک سے بہت عرصے سے وابستہ ہیں۔ وہ پانچ بار پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو چکے ہیں اور ریاست کا وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے نفرت انگیز بیانوں کے لیے مشہور ہیں۔یوگی ہندوتوا کے اس بنیادی فلسفے میں یقین رکھتے ہیں کہ انڈیا صرف انگریزوں کے زمانے میں ہی غلام نہں تھا بلکہ ہندو یہاں ایک ہزار برس قبل یعنی مسلم سلاطین کی حکمرانی کے وقت سے غلام ہیں۔وہ افغانستان، ایران اور وسط ایشیا سے آئے ہوئے ان سلاطین کو حملہ آور اور لٹیرا قرار دیتے ہیں اور صدیوں تک اس ملک میں رہنے اور یہاں کی ثقافت اور مٹی میں رچ بس جانے کے باوجودانہیں غیر ملکی حملہ آور ہی تصور کرتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ برسر اقتدار آئیں گے تو کیا مسلمان ممالک سے سفارتی تعلقات توڑ لیں گے ؟اوربھارت سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کردیا جائے گا ۔ لگتا تو ایسا ہی ہے ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی خوشنودی میں بھارت کے سامنے پسپائی دکھا رہا ہے ۔