اسلام میں ارتداد کی سزا، ہجوم کا قانون ہاتھ میں لینا

تحریر وتجزیہ : وجیہ احمد صدیقی
پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے ایک شخص کی ہلاکت کے واقعے کے بعد پولیس نے 15 مرکزی ملزمان کی شناخت کر کے گرفتار کر لیا ہے۔پنجاب پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کی اتوار کو جاری پریس ریلیز کے مطابق ’ان گرفتار ملزمان کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے شہری اسلم پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔‘اس واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہجوم کے تشدد اور قانون ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ میاں چنوں میں واقعے کے ذمہ داروں اور فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔میاں چنوں میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے تشدد کر کے ایک شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔اس سے قبل دسمبر 2021 میں سیالکوٹ میں توہین رسالت کا الزام لگا کر سری لنکن انجینئر کو بے رحمی کے ساتھ ہجوم نے قتل کردیا تھا اوربدنامی کا داغ پاکستان کے ماتھے پر لگا اور اب میاں چنوں میں ہونے والاواقعے کو دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ نے نمایاں جگہ دی ہے ۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں مسلمان طالبہ کا واقعہ غیر اہم ہو کر رہ گیا ہے ۔اس واقعے پر پاکستانی علماء کرام کو نئی ایس او پیز تیار کرنا ہوں گی ۔ایسے نعروں پر پابند ی لگانی ہوگی جو لوگوں کو مشتعل کرتے ہوں ، لوگ خود ہی فیصلہ کرلیتے ہیں کہ فلاں شخص نے توہین رسالت یا توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے ۔ان طاقتوں کو جومخالف سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی سیاسی عفریت پالتے ہیں اور جب وہ عفریت اپنی درندگی پر اترتا ہے اور قابو سے باہر ہوجاتا ہے تو اس کے خلاف ہر کارروائی اسے مزید تقویت بخشتی ہے ۔مقتدر قوتوں نے سیاسی قوت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ایک مذہبی عفریت کو فیڈ کیا اب وہ سوچ اس مخصوص جماعت کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور ہر شخص خود یہ فیصلہ کررہا ہے اور قانون کو ہاتھ میں لے رہا ہے ۔یہاں ہم ایک عالم دین کے مضمون کو نقل کریں گے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک مرتد کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے شکوک و شبہات کو علماء کے سامنے بیان کرے علماء اس کی تشکیک کو دور کریں اگر وہ اس کے باوجود اپنے ارتداد پر اصرار کرے تو علماء اس کے قتل کا فتویٰ دیں گے ۔ لیکن اس پر عمل درامد حکومت کرے گی۔ علماء اپنے ہاتھ میں تلوار یا بندوق لے کر نہیں بیٹھتے ۔کہ اپنے فیصلے پر خود عمل درآمد کریں ۔ نہ ہی عوام کا فرض ہے کہ وہ خود ہی فتویٰ صادر کریں اور خود ہی سزا دے دیں ۔دارالعلوم دیوبند کے فتاوی ٰمیں ایک حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ترجمہ: ”حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن بھیجا تو فرمایا: جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے، اسے اسلام کی دعوت دو، اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو، اوراگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن اڑادو، اور جونسی عورت اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے، اسے بھی دعوت دو، اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو، اگر توبہ سے انکار کرے تو برابر توبہ کامطالبہ کرتے رہو (یعنی اس کو قتل نہ کرو)“۔ (مجمع الزوائد: ۲۶۳، ج:۶)

ایک بھارتی عالم دین ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی نے یہ مضمون لکھا ہے وہ ریاض سعودی عرب میں رہتے ہیں ، ان کے بیان کے مطابق تمام مکاتب فکر نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی حکومت مرتد کو قتل کرے گی اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنےکے لیےتیار نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ :
اسلامی نقطۂ نظر میں مذہب اسلام کو چھوڑنا یعنی مُرتَد ہوجانا انسان کے لیےایسی بڑی مصیبت ہے جو دنیا وآخرت ہر اعتبار سے انسان کو برباد کرنے والی ہے۔
اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے تو پہلے اسے دوبارہ اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور حکمت وبصیرت کے ساتھ ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ دوبارہ اسلام اختیار کرلے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے دردناک عذاب سے بچ جائے۔ اگر مرتد اسلام کو دوبارہ اختیار کرلیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ساتھ کلمہ شہادت پڑھنا ہوگا لیکن اگر کوئی مرتد دوبارہ اسلام قبول کرنےکے لیےتیار نہیں تو جس طرح دنیاوی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باغی کو بھی اسلامی حکومت قتل کرائے گی جیساکہ ابتدائے اسلام سے آج تک مفسرین، محدثین، فقہاء وعلمائے کرام نے قرآن وحدیث اور خلفائے راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں فیصلہ فرمایا ہے
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعینِ زکوٰۃ کی جو سرکوبی کی وہ اسی حکم کے تحت کی۔ مسیلمہ کذاب کا فتنہ بھی اسی محاربۃ اللہ ورسولہ کے تحت آتا ہے۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
’’ جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کو قتل کردو۔ ‘‘(بخاری، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد) ۔
٭ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم نے یمن کے ایک صوبے کا گورنر بناکر بھیجا جبکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے بعد دوسرے صوبے کا گورنر بناکر بھیجا ۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملاقاتکے لیےگئے۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اکرام ِ ضیف کے لئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے لئے تکیہ ڈالا اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ابھی بیٹھ رہے تھے کہ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص بندھا ہوا دیکھا۔ پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا، اس کے بعد پھر یہودی ہوگیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا اے معاذ! بیٹھ جاو۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تک اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، میں نہیں بیٹھوں گا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے۔3 بار حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا۔ پھر اس مرتد کے بارے میں قتل کا حکم دیا گیا اور وہ قتل کردیا گیا (بخاری و مسلم)۔
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ کسی مسلمان کا جو اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسولﷺ ہوں، خون بہانا جائز نہیں مگر 3 چیزوں میں سے کسی ایک کے ارتکاب پر:1) شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے۔2) کسی کو قتل کردے تو اس کے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ 3) اپنے دین اسلام کو چھوڑکر ملت سے خارج ہوجائے تو قتل کیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد) ۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ رحمہ اللہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضور اکرم ﷺ کی وفات ہوئی اور مدینہ منورہ کے اردگرد بعض افراد مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر ان کے قتل میں تامل کررہے تھے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرچہ حضور اکرم ﷺکی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی لیکن اللہ کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار کو پکڑسکے گا(تاریخ الخلفاء ) ۔اس واقعہ کے بعد حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے اجماع صحابہ کے باعث مرتد قرار دیاگیا تھا، چنانچہ ایک لشکر حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتار دیا (فتح الباری) ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کو گرفتار کیا اور ان کی سزا کے بارے میں مشورہ کے لیےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں تحریر کیا کہ ان پر دین حق پیش کرو، اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑدو ورنہ قتل کردو۔ اسی طرح حضرت امام بخاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بعض مرتدین کو قتل کیا (بخاری)۔
یہ ان خلفائے راشدین کا عمل ہے جن کی اقتداءکے لیےحضور اکرم نے قیامت تک آنے والی پوری امت کو حکم دیا ہے
’’ تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں مختار بن ابی عبید کو نبوت کا دعویٰ کرنے پر قتل کیا تھا (فتح الباری)۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا۔ اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لئے تیار نہیں۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہؒ عقیدہ کی سب سے مشہور ومعروف کتاب تحریر کرنے والے مصری حنفی عالم امام طحاویؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ اور علمائے احناف کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ مرتد کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا یا نہیں؟ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اگر حاکم مرتد سے توبہ کرنے کا مطالبہ کرے تو اچھا ہے، توبہ نہ کرے تو قتل کردیا جائے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام ابویوسفؒ اور حضرت امام محمدرحمہم اللہ ؒ کا یہی قول ہے۔ علماء کی دوسری جماعت فرماتی ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے جیساکہ دار الحرب کے کفار کو جب دعوت اسلام پہنچ جائے تو پھر ان کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت نہیں۔ دعوت نہ پہنچی ہوتو دعوت دی جائے اور توبہ کا مطالبہ اس وقت واجب ہے جبکہ کوئی شخص اسلام سے بے سمجھی کی وجہ سے کفر کی طرف چلا جائے۔ رہا وہ شخص جو سوچے سمجھے طریقہ پر اسلام سے کفر کی طرف چلاجائے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔ ہاں اگر وہ میرے اقدام سے پہلے ہی توبہ کرلے تو میں اسے چھوڑدوں گا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردوں گا (طحاوی ، کتاب السیر)۔
غرض یہ کہ قرآن وحدیث اور خلفائے راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں اہل السنت والجماعت کے تمام مکاتب فکر اور اسی طرح شیعہ مکتب فکر کے علمائے کرام نے یہی فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلامی حکومت مرتد کو قتل کرائے گی اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنےکے لیےتیار نہیں ۔
اسلام میں مرتد اور توہین دین کرنے والوں کی سزا متعین ہے لیکن اس سزا پر عمل درامد کرنا اسلامی حکومت کا اختیار ہے عوام کا نہیں علماء کرام کو فساد فی الارض سے بچنے کے لیے عوام کی تربیت کرنا ہوگی ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ علماء کرام کی ایک کانفرنس بلائی جائے کہ تربیت کیسے کی جائے اور سزا کیسے دی جائے-