بلوچستان میں بھارت کی دلچسپی کس لیے ؟ تحریر و تجزیہ : وجیہ احمد صدیقی

بھارت کی سرحدیں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے نہیں ملتیں لیکن بھارت وہاں مداخلت کے لیے پاکستان کے مغربی پڑوسیوں کے سرحدی علاقے کو استعمال کرتا ہے اورسمندری راستے کو بھی ۔بھارت جس طرح کھلم کھلابلوچستان کے معاملات پر تبصرے کررہا ہے یہ ایک آزاد ملک کے معاملات میں مداخلت ہے ۔پاکستان کی کسی بھی حکومت نے بھارت کو یہ یادنہیں دلایا کہ اس نے مشرقی پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پار کرکے ایک بین الاقوامی جرم کا ارتکاب کیا تھا ۔اس نے پاکستانی افواج سے جس طرح ہتھیار ڈلوائے وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کا جرم کیا ہے ۔اگر ایسی ہی کوئی صورت حال تھی تو ڈھاکہ میں اقوام متحدہ کی امن افواج اترتیں اور وہ پاکستانی افواج سے ڈھاکہ کا کنٹرول حاصل کرتیں ۔لیکن نہ یحییٰ خان کو کوئی شعور تھا اور نہ ہی پاکستانی سیاست دانوں میں کوئی ہمت تھی ۔ بنگلہ دیش قائم ہوگیا لیکن بھارت کا جرم اپنی جگہ موجود ہے ۔ اسے بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔اب بھارت دوسرا جرم کرنے جارہا ہے اس نے بلوچستان کو بھی بنگلہ دیش سمجھ لیا ہے اور مسلسل مداخلت کررہا ہے ۔کل بھوشن یادو جسے 3 مارچ 2016 کو گرفتار کیا گیا تھا ۔پاکستان کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران 3 مارچ 2016 کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی پاک فوج کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد یہ خبر پاک بھارت سرحد کے دونوں اطراف میں رہائش پذیر کروڑوں افراد کے درمیان موضوع بحث بن گئی۔اس کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈھٹائی دیکھیں کہ اپنی 15 اگست 2016 کی تقریر میں کہتا ہےکہ وہ بلوچستان اور گلگت بلتستان اورپاکستانی کشمیر کے لوگوں کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ظلم وستم پر مودی کی تنقید کا خیر مقدم کیا ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں اس پر احتجاج کیا گیا تھا ۔کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد بھارت کی بلوچستان کے بارے میں ڈھٹائی بڑھ گئی اور کل بھوشن کی رہائی کے لیے پاکستان پر دبائو بڑھا دیا اور پاکستان کی عمرانی حکومت بھارت کے دبائو میں آگئی ۔ عمران خان کی حکومت نے تو بھارت کے کشمیر کے انضمام پر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے بھارت کو ہزیمت اٹھانا پڑتی ۔ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی نہیں اٹھا سکا جس کی قراردادوں کی بھارت نے صریحاً خلاف ورزی کی ہے ۔پاکستان کی حکومت کل بھوشن کی گرفتاری کو بھی دنیا کے سامنے بھارت کی مداخلت کے ثبوت کے طور پر نہیں پیش کرسکا ۔پاکستانی حکومت کی خارجہ پالیسی امریکی اشاروں کے گرد گھومتی رہتی ہے اور امریکہ نہیں چاہتا کہ اس کے اسٹریٹیجک پارٹنر کے خلاف پاکستان کچھ کرے اسی لیے سی آئی اے کے سابق ملازم معید یوسف کو پاکستان کی قومی سلامتی کے شعبے پر مسلط کیا گیا ہے ، تاکہ پاکستان امریکہ اور اس کے اسٹریٹیجک پارٹنر کے مفادات کو زک نہ پہنچے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود اپنا کیس بین الاقوامی سطح پر نہیں لڑ پارہا ہے ۔جبکہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرنے کے باوجود ہر جگہ پذیرائی کی جارہی ہے ۔جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بلوچستان میں دہشت گردوں کی اسلحے سے مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں بھی اٹھا رہا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالا جاسکے ۔بھارت کے سرکاری نشریاتی ادارے آل انڈیا ریڈیو (اے آئی آر) نے ایک بلوچی ملٹی میڈیا ویب سائٹ اور ایک موبائل ایپ لانچ کررکھی ہے ۔تاکہ بلوچستان میں آگ کو مزیدبھڑ کایا جاسکے۔بھارت 1974 سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے لیے سہولت کار بنا ہوا ہے ۔ آل انڈیا ریڈیواس وقت سے بلوچی نشریات کررہا ہے ۔بھارت کی دلچسپی بلوچستان کے وسائل پر ہے اسے وہاں کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ماسکو میں مقیم سابق علیحدگی پسند بلوچ رہنما جمعہ مری بلوچ کا کہنا ہے کہ بھارت نے بلوچستان کی جدوجہد کو یرغمال بنا لیا ہے۔انہوں نے ماسکو میں پاکستانی یونٹی ڈے میں شرکت کے دوران روسی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لیے ہر کوئی میری کاوشوں اور جدوجہد سے واقف ہے۔ میرامقصد حیات بلوچستان کے حقوق کی جنگ رہا۔ جس کے لیے میں نے دنیا بھرمیں پاکستان مخالف کانفرنسسز اور سمینارز میں شرکت بھی کی۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کےعلاوہ کسی بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے کو کوریج نہیں دی جاتی۔ دراصل بھارتی ایجنسیاں ان چینلز کو وہاں موجود اپنے بھارتی ایجنٹ (جو بطور بلوچ جنگجو یا علیحدگی پسند کی حیثیت سے سرگرم ہیں) کی کوریج کا معاوضہ دیتی ہیں۔ جب کے ان جنگجوؤں کو بھی بھارتی جاسوس ایجنسیاں پیسے دیتی ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے کا بھارتی مقصد مقبوضہ کشمیرکی آزادی اور حق خودارادایت کی آواز کو دبانا ہے۔جمعہ مری نے مزید کہا کہ”میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان بھارت کو مقبوضہ کشمیرکی مدد نہ کرنے کا تھوڑا سا اشارہ بھی دے دے تو دوسرے روز سے ہی بھارتی ایجنسیاں بلوچستان سےغائب ہوجائیں یا بلوچوں کو سیوریج کی لائنوں میں ڈال دیں۔انہوں نے اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ” آزاد بلوچستان کا جھنڈا بھی میں نے ہی تیار کیا تھا جس کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے۔ میں نے بلوچستان کی آزادی اور حقوق کی خاطر اپنا گھر، خاندان اور پاکستان سب چھوڑ دیا اور جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہوں۔جمعہ مری بلوچ بلوچستان کے ایک سخت گیر علیحدگی پسند رہنما کے طور پر مشہور رہے ہیں تاہم کچھ عرصے قبل انہوں نے پاکستان مخالف جدوجہد ترک کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ بھارت کی نظریں قیام پاکستان کے وقت سے ہی بلوچستان پر ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ نے بھارت کے اس مقصد کو مزید ہوا دے دی ہے ۔ نومبر 2020 کی بات ہے جب خطے میں ایک ایسی ڈویلپمنٹ نظروں سے اوجھل رہی جس کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے تھا۔ یہ ڈویلپمنٹ امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے کی صورت میں امریکی صدارتی الیکشن سے کچھ روز قبل پراسرار طریقے سے ہوئی جس پر دستخط کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیواور وزیر دفاع مائیک ایسپر اچانک بھارت گئے اور ’’بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ معاہدے پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع نے دستخط کئے۔ معاہدے کے تحت امریکہ، بھارت کو جیواسپیشل انٹیلی جنس یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی خفیہ جغرافیائی معلومات فراہم کرے گا۔ اس طرح اِن حساس سیٹلائٹ معلومات کے بعد بھارت کے پاس پاکستان کے تمام حساس مقامات کی معلومات آجائیں گی جس سے ہمارے بیلسٹک میزائل سمیت تمام خفیہ تنصیبات کا پتہ چلایا جاسکےگا۔ بھارت کو فراہم کئے گئے امریکی سیٹلائٹ ڈیٹا کی معلومات سے بھارت کو خودکار میزائل اور مسلح ڈرون کو درست مقامات پر نشانہ لگانے میں مدد ملے گی جس کے ذریعے بھارت، پاکستان کی میزائل تنصیبات کو باآسانی نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ امریکی انتظامیہ کی اُن کوششوں کا حصہ ہے جس کے ذریعے امریکہ اپنے اتحادیوں کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت سے معاہدے کرنا چاہتا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ بھارت کو خطے کا چوہدری دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جنگی صورتحال پیدا کی جائے تاکہ چین کو جنگ میں الجھاکر کمزور کیا جاسکے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ بھارت اس سے قبل بھی امریکہ کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرچکا ہے جس کی رو سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے دفاعی اڈوں کو استعمال کرسکیں گے۔ امریکہ، بھارت حساس نوعیت کے دفاعی معاہدے پر چین شدیدتشویش کا اظہار کررہا ہے مگر اس معاملے پر حکومت پاکستان کی خاموشی معنی خیز ہے اور حکومت نے اس معاہدے پر امریکہ سے احتجاج کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ چین کو بھی امریکہ بھارت معاہدے پر شدید تحفظات ہیں جو ایسے وقت میں کیا گیا جب چین اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور ہمالیہ کے مقام پر رواں سال جون سے دونوں ممالک کے مابین شدید تنائو کی صورتحال ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے لیے نقصان دہ اور بھارت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو امریکی فوجی ہارڈویئر، ٹیکنالوجیز اور معلومات کی فراہمی علاقائی استحکام بالخصوص پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔پاکستان نے جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا اور نائن الیون کے بعد پاکستان، امریکہ کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل قربانیاں دیتا رہا ہے جس میں پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا بھی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوا جس میں پاکستان، طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں مذاکرات کی میز پر لایا مگر امریکہ، طالبان معاہدے جس میں پاکستان بھی فریق ہے، کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ امریکہ نے ایک حساس نوعیت کا معاہدہ بھارت سے کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں۔چین کے مفادات پاکستان میں سی پیک راہداری کے ساتھ ہیں سی پیک کا بڑا حصہ بلوچستان میں ہے اور بھارت کو امریکہ کی جانب سے اجازت مل گئی ہے کہ وہ چین کو نقصان پہنچانے کے نام پر پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کرے ، کیونکہ بھارت اور امریکہ میں یہ معاہدہ ہوا ہے کہ بھارت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے اسی پس منظر میں امریکی ذرائع ابلاغ کو اب بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی نظر آنے لگی ہے ۔ اور دہشت گردی کے تازہ ترین واقعات میں افغانستان میں امریکی قبضے کے دوران بھارت کی زیر سرپرستی کام کرنے والی تنظیم ٹی ٹی پی بھی شامل ہوگئی ہے اس لیے پاکستانی سپاہیوں کی شہادت میں اضافہ ہوگیا ہے اور اسی ٹی ٹی پی سے عمرانی حکومت مذاکرات کررہی ہے ؟ کیوں کیا یہ امریکی دبائو کا نتیجہ تو نہیں ہے ؟کیونکہ یہ امریکی دبائو ہی ہے کہ بھارت کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کے جواب میں پاکستان نے بھارت کو کرتار پور میں بھارتیوں کے داخلے کا اختیار دے دیا ہے ، افغانستان میں تجارت کے لیے واہگہ باڈر کا راستہ دے دیا ہے ۔جس ملک نے پاکستان کی شہ رگ کو گلے سے پکڑ رکھا ہے اورپاکستان کی وسائل سے بھری سرزمین میں آگ لگا رکھی ہے اس کے آگے عمرانی حکومت ماضی کی حکومتوں کے برعکس بچھی جارہی ہے ۔اس کی بھارت کی پاکستان دشمنی پر کوئی توجہ نہیں ہے کیونکہ عمرانی حکومت کی ساری توجہ اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام کے نت نئے طریقوں کی ایجاد میں رہی ۔جبکہ پاکستان کے دشمنوں سے ہاتھ ملانے کی کوشش جاری رہی اورپاکستان کے دوستوں کے ساتھ جو کچھ عمرانی حکومت نے کیا اس کے نتیجے میں چین نے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی تک اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔مسلم لیگ ن کی حکومت میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی تھی لیکن عمرانی حکومت کے دور میں دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں کہ چین نے سی پیک کا کام لپیٹ دیا ۔بلوچستان میں آگ بھڑک اٹھی ہے لیکن وزیر داخلہ شیخ رشید احمدکی ساری توجہ سیاسی مخالفین پر ہے ۔بھارت اپنے لوگوں کو یہ بتا رہا ہے کہ قلات کے خان نے پاکستان کے ساتھ الحاق سے انکار کیا تھا ، جبکہ لس بیلہ، خاران اور مکران کی ریاستیں تو پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے تیار تھیں ۔ بھارت یہ کیوں نہیں یاد کرتا کہ کہ جونا گڈھ کی ریاست نے پاکستان کے ساتھ الحاق کااعلان کیا تھا جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ، بھارت نے حیدر آباد دکن کی آزاد ریاست پر قبضہ کیا اس پر فوج کشی کی اور کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادی سے محروم رکھا اور اب پاکستان میں بلوچستان کے پرامن لوگوں کی جان کا دشمن ہوگیا ہے ۔

اسی پس منظر میں امریکی ذرائع ابلاغ کو اب بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی نظر آنے لگی ہے ۔