سیاچن سے افواج کی واپسی تحقیق و تحریر : وجیہ احمد صدیقی

دنیا کا یہ بلند ترین اورسرد ترین محاذ 38 برسوں سے گرم ہے

چند دن پہلے یہ خبریں آئیں کہ بھارت نے سیاچن گلیشئرسے فوجوں کی واپسی کی تجویز دی ہے ۔جس پر پاکستان نے محتاط رد عمل کا اظہار کیا  ہے ۔دراصل بھارت نے پاکستان کی جانب سے سیاچن کے محاذکو خالی کرنے کی تجویز کو نہایت مکاری کے ساتھ رد کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا یہ تجویز اس کی تھی  ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ  نے بھی یہ خبر بھارتی پیش کش کےتناظر میں دی ہے کہ پاکستان  بھارت کی اس پیش کش پر محتاط ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت سیاچن  کے محاذسے جانا  ہی نہیں چاہتا لیکن اس کے فوجی وہاں محض پائوڈر کا دودھ کھا کر زندگی گزار رہے ہیں وہ تنگ آچکے ہیں  ۔انہیں سیاچن کے سرد جہنم میں  6 ماہ تک مسلسل ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے  وہ تنگ آچکے ہیں ۔ لیکن بھارت کی تشویش کے کئی اور اسباب بھی ہیں ، مثلاً بھارت وہاں سے اس لیے بھی نہیں جانا چاہتا ہے کہ اس کے وہاں سے نکل جانے کی وجہ سے چین اور پاکستا ن کو مظفر آباد ، یار کندوادی روڈ کی تعمیر میں آسانی ہوجائے گی ۔ جس کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جاچکا ہے ۔ یہ نئی شاہراہ جو شاکسگام وادی سے گزرے گی جو سیاچن کے پڑوس میں ہے اور یہ لداخ پہنچنے کا نیاراستہ بھی ہوگا ۔بھارت اسی بات سے خوفزدہ ہے کہ اگر اس نے سیاچن کا محاذ خالی کیا تو وہاں چین اورپاکستان کی افواج آجائیں گی  کیونکہ پاکستان نے اکسائی چن کا علاقہ چین کو دے دیا تھا جس کے بعد بھارت چین اور پاکستان کے گھیرے میں ہے ۔بھارت اور پاکستان کے درمیان گذشتہ38 برس سے جاری اس جنگ میں انسانوں کا مقابلہ انسانوں سے کم اور قدرت سے زیادہ ہے۔ سردی کے موسم میں سیاچن گلیشیئر پر درجہ حرارت منفی 60 ڈگری تک گر جاتا ہے اور برفانی طوفان اور ہواؤں کے جھکڑ 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہیں اور اپنے ساتھ اوسطً 40 فٹ برفباری لاتے ہیں۔ اس گلیشیئر پر سالانہ آٹھ ماہ برفباری ہوتی ہے اور اونچائی کی وجہ سے صرف 30 فیصد تک آکسیجن رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں سانس لینا دشوار تر ہو جاتا ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود دونوں ملکوں کی فوجیں اپنی تیاریاں برقرار رکھتی ہیں۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل 1984 سے شروع ہونے والی اس جنگ میں پاکستان اور بھارت کے اب تک تقریباً تین سے پانچ ہزار فوجی جانیں گنوا چکے ہیں جن میں 70 فیصد سے زیادہ اموات موسم اور اس خطے کی دشواریوں کےباعث ہوئی ہیں۔ 2003 میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے سیاچن پر جاری جنگ  اس لحاظ سے دنیا کی منفرد ترین جنگ ہے جہاں 14 سال سے کوئی گولی نہیں چلی اور اس عرصے میں یہاں ہونے والی تمام اموات قدرتی وجوہات کی وجہ سے ہیں۔ ان قدرتی آفات کو دیکھتے ہوئے اس محاذ کو خالی کرنے کی یہ تجویز پاکستان کی تھی جب 7 اپریل 2012کو سیاچن کے مقام ” گیاری “پر برفانی تودہ گرنے سے پاک فوج کے تقریباً150 افسر اور جوان شہید ہوگئے تھے ، تو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے بھارت اور پاکستان کی افواج کے بیک وقت انخلاء کی تجویز دی تھی ۔مگر بھارت کی قیادت پاکستان کے اتنے بڑے نقصان پر خوش تھی ۔بھارتی حکومت نے اس تجویز پر کان  ہی نہیں دھرا ۔لیکن اب بھارت کے فوجی بھی پاکستانی فوجیوں کی گولیوں سے زیادہ موسم کا نشانہ بن رہے ہیں ۔دنیا کا یہ بلند ترین اورسرد ترین محاذ 38 برسوں سے گرم ہے ۔ اس عرصے میں تقریباً تین سے پانچ ہزار فوجی اور کروڑوں ڈالرز گنوانے کے باوجود دونوں ممالک کے عسکری حکام اس محاذ سے واپسی پر قائل نہیں ہو سکے ہیں۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکندا نراونے کی جانب سے اس حالیہ بیان کے بعد کہ بھارت دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ  سیاچن گلیشیئر سے فوج ہٹانے کے خلاف نہیں ہے، ایک بار پھر یہ بحث شروع ہو گئی ہےکہ  کیاسیاچن گلیشیئر کا علاقہ غیر عسکری (افواج کی موجودگی سے پاک علاقہ) بن سکتا ہے یا نہیں۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج نراونے نے 12 جنوری2022 کو سالانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سیاچن گلیشیئر سے فوج ہٹانے کے خلاف نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ “ہم سیاچن گلیشیئر کو غیر عسکری بنانے کے مخالف نہیں ہیں، لیکن اس کے لیے پیشگی شرط یہ ہے کہ پاکستان کو ایکچوئل گراؤنڈ پوزیشن لائن (اے جی پی ایل) کو قبول کرنا ہو گا۔”گویا بھارتی فوج وہی مرغے کی ایک ٹانگ کے محاورے کے مترادف اپنی ہی شرائط پر محاذ کو خالی کرنا چاہتی ہے ۔ایکچوئل گراؤنڈ پوزیشن لائن (اے جی پی ایل) وہ لکیر ہے جو سیاچن گلیشیئر پر پاکستانی اور بھارتی افواج کی موجودہ پوزیشنز کی نشاندہی کرتی ہے۔ 110 کلومیٹر طویل اس لائن کا آغاز پاکستان کے آزاد اور بھارت کےمقبوضہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے شمال میں آخری پوائنٹ سے ہوتا ہے ۔ 1971 کی جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول کے شمال میں آخری پوائنٹ این جے 9847 سے آگے کے علاقے میں زمینی طور پر سرحد کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی، لیکن اصولی طور پر نقشے میں اس پر اتفاق تھا اور اس سے آگے کے علاقے کے بارے میں یہی سمجھاجا رہا تھا کہ یہاں کوئی قبضہ نہیں کرے گا۔لیکن 1984کے اواخر میں بھارت  نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس وقت ان علاقوں پر قبضہ کر لیا جب پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں سوویت حملے کے خلاف مصروف عمل تھا۔ بھارت نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور آ کر وہاں بلند چوٹیوں پر بیٹھ گیا اور تب سے وہ اسے خالی نہیں کر رہا ہے۔ بھارت سیاچن کے علاقے میں شمال مغرب کی جانب آنا چاہتا تھا اور پاکستان شمال مشرق کی چوٹیوں کی جانب بڑھنا چاہتا ہے۔پاکستان کا موقف ہے کہ 1984 میں بھارتی فوج نے سیاچن ہر ناجائز تسلط جمایا تھا جس کے جواب میں پاکستان کو بھی اپنی فوجیں وہاں متعین کرنا پڑیں ۔ یوں بھارت کی فوج کے قبضے کی وجہ سے نہ صرف دونوں ملکوں کے معاشی مسائل پر خاصابوجھ پڑ رہا ہے بلکہ قابض بھارتی فوج نے گزشتہ 30 برسوں  میں اس گلیشئرکو اتنا آلودہ کردیا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کی جانب آنے والے پانی پر اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور آئندہ برسوں میں  یہ گلیشئر پگھل کر ناقابل تصورتباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔ اس ضمن میں 2005 میں پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اس بات پر متفق ہوچکی تھیں کہ سیاچن گلیشئر سے دونوں ممالک اپنی اپنی افواج واپس بلا لیں گے ، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے تو یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ  فوجی انخلاء کے بعد سیاچن کو امن پارک میں تبدیل کردیا جائے گا۔لیکن بھارتی فوج نے بھارتی وزیر اعظم کی اس تجویز کو ٹھکرا دیا ۔2015 کے اعداد وشمار کے مطابق بھارتی فوج سیاچن پر اپنے 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لیے  سالانہ 500 ملین ڈالر خرچ کرتی ہے ۔جبکہ پاکستان کی فوج

اپنے 5 ہزار فوجیوں کے لیے 60 سے 70 ملین ڈالر سالانہ خرچ کرتی ہے ۔یہ آپس میں کم اورموسم سے زیادہ لڑتے ہیں ۔