پاکستان کی نظریاتی شناخت پر ضربیں تحریر: وجیہ احمد صدیقی

ارے مومنو تم کہاں سو رہے ہو
یہ قراں خدا کا لٹاجارہا ہے

پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر عوام نےجس قدر دھوکے کھائےہیں، ان کا شمار ناممکن ہے ۔آج کل عمران خان ریاست مدینہ کے نام پر قوم کو بہلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دھوکہ دہی کی ان وارداتوں میں اسلامی اصطلاحات کا نہایت بے دردی کے ساتھ استحصال کیا گیا ہے ۔سب سے مظلوم اصطلاح شہید کی ہے ۔اسلام میں شہید کی اصطلاح اللہ کی راہ میں جان دینے والے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ اب یہ اسلامی اصطلاح سکھوں اور ہندئوں نے بھی اپنا لی ہے وہ بھی اپنے ہلاک ہونے والوں کے لیے شہید کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، ہندوئوں سے شہید کا لفظ ادا نہیں ہوپاتا تو وہ سہید کہتے ہیں ۔ پاکستان میں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اور جرائم کے ارتکاب کے نتیجے میں قتل ہونے والوں کے لیے بلاجھجھک شہید کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اورانہیں بدر و حنین اور کربلا کے شہدا کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔شہید کے لفظ کے اتنی بے حرمتی مسلمانوں نے کس طرح برداشت کی ہے حیرت ہے ۔ دوسری اصطلاح صادق اور امین کی ہے ۔جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں نبی اکرم ﷺ کے ان القابات کو عام افراد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ،بالکل غلط ہے صادق اور امین اہل مکہ حضور اکرم ﷺ کو کہتے تھے ، آج اپنے کردار میں ابوجہل بھی اپنے لیے اسے استعمال کرتے ہیں اور مسلمانوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی ۔پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ کس طرح صادق اور امین ہوسکتے ہیں ؟ انہیں صرف سچا اور دیانت دار ہونا چاہیے ۔نبی اکرم ﷺ کے لیے وقف القابات و خطابات کو مرزا غلام احمد قادیانی کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا گیا تھا جس پر پابندی لگائی گئی تو شور مچ رہا ہے لیکن جو القابات و خطابات نبی آخر الزماں ﷺکے لیے وقف ہیں وہ کسی کاذب کے لیے نہیں استعمال ہوسکتے ،اور اب مغرب کا کھلاڑی لڑکا ریاست مدینہ کی علامتی اصطلاح کا استحصال کررہا ہے ۔جس سود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺنے مسترد کیا اور سودی نظام کو نافذ کرنے والے کے بارے میں کہا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کرتا ہے ۔اللہ اور اس کے اس حکم کو عمران خان نظر انداز کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ سودی معیشت کو فروغ دینے کا معاہدہ کرلیتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی عمران خان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ریاست مدینہ کا نام بھی اپنے منہ سے نکالیں کیونکہ جب تک ملک میں سودی نظام نافذ ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ ان کی جنگ ہے ۔یہ کیسی ریاست مدینہ ہے کہ یہاں حلف اٹھانے کے لیے صرف ایک سادہ کاغذ کافی ہوتا ہے جبکہ امریکہ جیسی سیکولر ریاست کا سربراہ اپنی مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھاتا ہے وہاں اکر کوئی مسلمان منتخب ہوتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ قران حکیم پر امریکہ سے وفاداری کا حلف اٹھائے ، لیکن پاکستان میں قران حکیم تو طاق پر ہی رکھا رہ گیا ہے ۔کسی کی ہمت نہیں ہے کہ سب کو پابند کیا جائے کہ وہ قران حکیم پر پاکستان اور آئین پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھائیں ۔پاکستان میں اسلامی شعائر اور اصطلاحات کی بے حرمتی کا تماشا دیکھنے والی دینی سیاسی جماعتیں بھی برابر کی مجرم ہیں آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان دینی سیاسی جماعتوں کا اولین مقصد پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ہے نفاذ اسلام نہیں ہے ۔وہ لاکھ وضاحتیں کریں اور ان لوگوں کو طعنے دیں جو ان کی اس کوتاہی کی نشان دہی کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ان کی اپنے مقصد سے دوری اور انتشار کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت کے ساتھ ساتھ اب اسلامی شعائر اور اصطلاحات کو بے وقعت کیا جارہا ہے ۔پاکستان میں لبرل ازم اور لادینیت کے سامنے کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی وہ نہایت تیزی کے ساتھ اپنا مشن پورا کررہے ہیں ۔پاکستان میں اسلامی نظام کے نام پر پہلے کچھ علامتیں موجود تھیں ، جیسے جمعے کی چھٹی تاکہ لوگ جمعے کی نماز کا اہتمام کرسکیں لیکن میاں نواز شریف نے اسے ختم کردیا لیکن اسے ریاست مدینہ کا نام لینے والے نے بھی بحال نہیں کیا۔ نواز شریف کے زوال کے اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے سود کے خاتمے کے حکم کو چیلنج کیا تھا گو یا قران کی رو سے وہ اللہ کے خؒلاف جنگ پر آمادہ ہوگئے تھے ۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو اسلامی دستور دیا تھا وہ اس پر فخر بھی کرتے تھے اور انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کا 90 سالہ فتنے کا فیصلہ بھی کردیا تھا اور جمعے کی چھٹی کا اعلان کیا تھا اور پاکستان سے نائٹ کلبس کا خاتمہ کیا تھا ۔لیکن آج کی پیپلز پارٹی اپنے بانی کے نظریات اور فیصلوں کے برعکس سیکولر ازم کی دلدادہ ہے ۔مجھے سب سے زیادہ گلہ پاکستان کی دینی سیاسی جماعتوں سے ہے کہ ان کا آج وہ کردار نہیں ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں تھا کہ انہوں نے پاکستان کے اسلامی دستور کے لیے کوششیں کیں اور ختم نبوت ﷺکا تحفظ کیا اور 7ستمبر 1974 کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے تاریخ ساز فیصلہ کیاجس کے اثرات ان شا اللہ تاقیامت رہیں گے ۔لیکن آج کل کی دینی سیاسی جماعتوں پر صرف اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اب محض سیاسی جماعتیں ہیں ان کامنشور اقتدار کا حصول ہے ۔دورِ جدید میں ‘اسلام’ کے نام پر قائم ہونے والی واحد ریاست ‘پاکستان’ کو اس وقت شدید نظریاتی بحران کا سامنا ہے۔ چند سالوں سے جاری مسلسل اقدامات کے بعد آخر کار وہ مرحلہ بظاہر پیش آتا نظر آرہا ہے جب اس ملک کی نظریاتی اساس سے ہی انحراف کرلیا جائے۔ اس عرصے میں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر لگاتار حملے کرنے کے بعد اُنہیں مختلف حیلوں بہانوں سے متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں ۔ عالمی پالیسیوں ، سیاسی اقدامات اور ابلاغی مہمات کے بل بوتے پر دھیرے دھیرے پاکستان میں اس نظریاتی کشمکش کو عروج پر پہنچا کرآخرکار اپنے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں ۔اگر ایک طرف عمران خان ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں تو دوسری طرف فواد چوہدری اسلامی شعائر پر حملہ کرتا ہے ، اور آئین پاکستان کے فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی بات کرتا ہے ،اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اسلام کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے۔ اسلام پر کھلم کھلا تنقید کرناتومشکل ہے، لیکن اسلام کے نام پرمدارس دینیہ اوراسلامی شعائر لگاتار نشانے پر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان کے جو حلقے ‘اسلام دوست’ یا ‘اعتدال پسند’ کہلاتے تھے، حکومتی ایوانوں سے اُبھرنے والی جنونی مہم جوئی کے ذریعے اُنہیں بھی تدریجا ً ‘روایت پسند’، ‘شدت پسند’ اور آخرکار ‘انتہاپسند’ قرار دیا جانے لگاہے جس کے بعد ‘دہشت گرد’ کی ‘سند ِتوصیف’ ملنے میں صرف ایک جست کا فاصلہ باقی رہ گیا ہے۔ انتخابات کے مرحلے پر رہے سہے وہ باقی تمام ‘اعزازات’ ملنے کی پوری توقع ہے جسے عالمی صہیونی میڈیا عرصۂ دراز سے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں ، بشمول حکومت ِپاکستان پر چسپاں کرتارہا ہے۔ حدود آرڈی ننس ایک طویل عرصے سے نشانے پر ہے ۔ دینی قوتیں دفاعی پوزیشن اختیار کررہی ہیں جبکہ ان کو جارحانہ ہونا چاہیے ان کو آئین پاکستان کی مدد حاصل ہے آئین پاکستان کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں قران وسنت سے متصادم قوانین کو ختم کیا جائے اورقران و سنت کے معاون قوانین کو وضع اور نافذ کیا جائے ۔ذرائع ابلاغ پر خواتین کے حسن کی منڈی لگانا بند کی جائے ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز ہونے والی خواتین کو پابند کیا جائے کہ وہ اسلامی لباس اور حدودوقیود کی پاسداری کرتے ہوئے سامنے آئیں ۔یہ کام صرف دینی سیاسی جماعتیں ہی کرسکتی ہیں بشرطیکہ یہ ان کی اولین ترجیح ہو۔
پاکستان کی دینی تحریکیں اور تنظیمیں غیرمعمولی افرادی قوت اور بہت بڑے تنظیمی نیٹ ورک کی حامل ہیں ۔ ان کے ادارے اور ان سے وابستہ ورکر سب سے زیادہ جانفشانی اور یکسوئی سےآخرت میں جوابدہی کے پیش نظر کام کرتے ہیں ، ان کے پاس مقدس ترین اسٹیج اور سینکڑوں صحافتی ذرائع ہیں ۔ ان میں سے ہر جماعت کا کروڑوں کا بجٹ ہے اور وہ ہرسال لاکھوں افراد کا اجتماع منعقد کرتی ہیں ۔ لیکن ان جماعتوں اور تنظیموں کا المیہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دائرے میں مگن ہے اور اس نے اپنے گرد خود ساختہ حساسیت کے دائرے کھینچ رکھے ہیں ۔اگر بعض مذہبی گروہوں پر فقہی تعصبات کا غلبہ ہے تو باقی تحریکیں مخصوص سیاسی یا عوامی اَہداف میں منقسم ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کے حساس مسئلہ پر کوئی زَد پڑے تو وہ حلقہ پوری قوت کے ساتھ اس کا جواب دیتا ہے لیکن حساسیت کے اس دائرے سے باہر پہاڑ بھی سرک جائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انہیں خواب غفلت سے کون جگائے گاکون ان سے کہے گا کہ ارے مومنو تم کہاں سو رہے ہو یہ قراں خدا کا لٹاجارہا ہے ۔