رضا ربانی :مردہ تہذیبوں کے پجاری تحریر: وجیہ احمد صدیقی

سابق چیرمین سینیٹ رضا ربانی نے بطور رکن سینیٹ 24دسمبر کو اپنی تقریر میں کہا کہ ہم عرب نہیں ہیں ہماری تہذیب وادیِ سندھ کی تہذیب ہے ۔ دوسرے جملے میں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی تلاش میں ہیں کہ وہ تہذیب ہے کیا؟۔ان کا یہ جملہ دراصل اسلام کے ساتھ پاکستان کے رشتے کی نفی ہے اور وہ رسول اکرم ﷺ کی نبوت کا واضح لفظوں میں انکار نہیں کرسکتے تو اسلامی اقدار کو عرب اقدار کہہ کر انکار کررہے ہیں ۔اگر انہیں عرب کلچر سے اتنی نفرت ہے تو اپنا نام رضا ربانی سے بدل کر رام ناتھ بھگوان رکھ لیں تاکہ انڈس سویلائزیشن کے مطابق ان کا نام ہوجائے اور انہیں عرب نام سے نجات بھی مل جائے گی ۔سندھ سے منتخب ہونے والے سینیٹر رضا ربانی نسلاً پنجابی ہیں اور سندھ کے کوٹے پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں ،اگر قوم پرستی کا یہی اصول اپنایا جائے جس کا اظہار رضا ربانی نے کیا ہے تو موصوف کو اخلاقی طور پر سندھ سے سینیٹر نہیں منتخب ہونا چاہیے تھا ، لیکن اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان اورپاکستانی سمجھتے ہیں تو وہ قانونی تقاضے پورے کرکے پاکستان کے کسی بھی صوبے سے الیکشن لڑ سکتے ہیں ۔وادی سندھ کی تہذیب یعنی انڈس ویلی سویلائزیشن سنہ 3300سے 1700 قبل مسیح کی بتائی جاتی ہے ۔یہ انسانوں کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے ۔ اس کے آثار ہڑپہ اور موئن جو ڈروکے نام سے ملے ہیں ۔ جن سے صرف یہ معلوم ہوسکا ہے کہ یہ لوگ پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے ان کے پاس بیل گاڑیاں تھیں وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے ، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے ۔ان میں کسان ، جولاہے کمہار اور مستری شامل تھے جنہیں وادی سندھ کی تہذیب کا معمار کہا جاسکتا ہے ۔موئن جوڈرو کے معنی تو سندھی زبان میں مردوں کا ٹیلہ ہے ۔ مغربی ماہرین آثار قدیمہ کا دعوی ٰ ہے کہ ان کے رسم الخط اور تحریر کو آج تک نہیں پڑھا جاسکا ہے۔جبکہ قدیم زبانوں کے ماہر مولانا ابوالجلال ندوی مرحوم کا دعویٰ ہے کہ موئن جو ڈرو سے ملنے والی مہروں میں اور عراق میں کش کے مقام سے ملنے والی مہروں کوئی فرق نہیں ہے کش کی مہروں کی تحریر کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ یہ پرانی عبرانی ہے لیکن موئن جوڈرو کی مہروں کو دانستہ نہیں پڑھا گیا کیونکہ اس سے عراق اور سندھ کے درمیان ایک رشتہ ثابت ہوتا ہے یعنی عرب اور سندھ کی تہذیب کے درمیا ن ایک رشتہ قائم ہوتا ہے ۔مولانا ابوالجلال ندوی مرحوم کا یہ بھی کہنا ہےکہ موئن جو ڈرو کا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے اورمہروں کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ توحید پرست تھے ۔ جس انڈس سولائزیشن کا نوحہ رضا ربانی پڑھ رہے ہیں اس کا انکشاف 1921 میں آج سے ٹھیک 100 سال پہلے ہڑپہ کی دریافت پر ہوا تھا اس کے بعد 1922 میں موئن جو ڈرو دریافت ہوا تھا ۔مردہ تہذیب کواپنی تہذیب کہنے والے رضا ربانی اس تہذیب کے مطابق اپنا لباس کیوں نہیں پہنتے ؟اگر وہ اتنے ہی مہذب ہیں تو وہی لباس اختیار کریں جو ہڑپہ اور موئن جو ڈاروسے برامد ہوا ہے، وہ مغربی تہذیب کا لبادہ کیوں اوڑھے ہوئے ہیں ؟ ان کو شکایت یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیوں کیا جارہا ہے؟ وہ تو قاتل ہیں، بالکل درست لیکن تحریک طالبان کو دہشت گردی سے روکنے کا دوسرا راستہ کون سا ہے ؟ جبکہ ان کی سرپرستی ہماری حکومتوں کے بقول بھارت کررہا ہے ؟چلیے یہ مان لیتے ہیں کہ قاتلوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملانا چاہیے ۔لیکن 1988 سے لے کر 2008 تک کی پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی حکومتوں نے ایم کیوایم سے نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ انہیں شریک اقتدار بھی رکھا ۔جبکہ وہ اہم شخصیات جیسے حکیم محمد سعید ،نظام صدیقی اور پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں کے سیاسی رہنمائوں کو قتل کیا ہے ۔ان کی تعداداتنی ہی ہے جتنی کہ تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی ہے ۔ایم کیوایم پر مصیبت آئی کہ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی لیکن مجرم صرف الطاف حسین ٹہرا اس کے باقی ساتھی پاک کردیے گئے جو الطاف کے حکم پر کراچی میں قتل و غارت کرتے تھے ۔گورنر عشرت العبادکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ الطاف حسین کے احکامات پر عمل درامد کو یقینی بناتے تھے ۔27 دسمبر 2002 سے 9نومبر 2016 تک گورنر سندھ رہے ۔کسی سیاسی جماعت کو یہ تکلیف نہیں تھی کہ اس نے قاتلوں سے ہاتھ ملایا ہے ۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی قاتلوں کو اپنی کابینہ میں پناہ دے رکھی ہے ۔رضا ربانی مذہبی کارڈ کی بات کرتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں مذہبی کارڈ استعمال کرتی ہیں ۔ دینی مذہبی جماعتیں تو مذہببی کارڈ استعمال کریں گی ہی ۔ لیکن اگر تحریک لبیک مذہبی کارڈ استعمال کرے تو اسے کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے پھر ان کی قوت سے خوفزدہ ہوکر انہیں بحال کردیا جاتا ہے ۔لیکن پاکستان کی سیکولر جماعتیں بھی مذہبی کارڈ استعمال کرتی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور ،کیا یہ مذہبی کارڈنہیں تھا۔نواز شریف کا داتا دربار پر چادریں چڑھانا ، کیا مذہبی کارڈ نہیں تھا ۔ملک کی سیکولر ترین جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ اپنی ہر تقریر میں ایک آیت تلاوت کرتے ہیں ایا ک نعبد و ایاک نستعین ، کیا یہ مذہبی کارڈ نہیں ۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد الیکشن جیتنے کے لیے اپنے بینر پر اپنے آپ کو مجاہد ختم نبوت لکھتے ہیں ، جبکہ ان کے پرو فائل میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ کبھی ختم نبوت کی تحریک کا حصہ بھی رہے ہوں ۔البتہ وہ پرویز مشرف کے قادیانی پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز کی چاپلوسی ضرور کرتے رہیں ۔قادیانی مذہبی کارڈ استعمال کرکے مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ پاکستان میں بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے مزے بھی لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔جنرل ایوب خان ویسے تو بڑے سیکولر تھے اذان تک اردو میں دینا چاہتے تھے اور اردو کا رسم الخط انگریزی کرنا چاہتے تھے ۔لیکن جب 1965 کی جنگ سر پر پڑی تو کلمہ طیبہ پڑھ کر تقریر کرنا شروع کردی، کیا یہ مذہبی کارڈ نہیں تھا؟رضا ربانی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی کی فکر کے باغی معلوم ہوتے ہیں ،ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے ، اور یہ بات پیپلزپارٹی کے منشور کا حصہ تھی اسی کی بنیاد پر 1973 میں پاکستان کے آئین کی بنیاد رکھی گئی اور اس آئین کے اسلامی ہونے پر ذوالفقار علی بھٹومرحوم فخر کرتے تھے ۔انہوں نے ہی آئین میں مسلمان کی تعریف واضح کردی اورجھوٹے نبی کے ماننے والوں کو غیر مسلم قرار دلوایا اور یہ فیصلہ قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر ہوا۔انہوں نے شراب خانے بند کیے ، جمعے کی چھٹی کااعلان کیا ۔رضا ربانی نے یہ کہا کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ان کی صرف یہی بات معقول ہے ۔جبکہ سینیٹ کے قائد ایوان شہزاد وسیم نے قرارداد پیش کی کہ “سیالکوٹ کے واقعے سے ہمارے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔” یہ عذر گنا ہ بد تر از گناہ ہے ۔ بات لوگوں کے جذباتی ہونے یااشتعال میں آنے کی نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت سری لنکا کے اس انجینئر کو نہ صرف تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ وہ بھی مذہبی کارڈ کو اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے استعمال کررہی ہے ۔رضا ربانی ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی آئین کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں تو انڈس ویلی سویلائزیشن کا نام نہ لیں ، اس کی مردہ زبان کو تو آج تک نہیں پڑھ سکے ہیں اور ہمارا رشتہ ایک زندہ دین سے کاٹ کر ایک مردہ تہذیب سے جوڑ رہے ہیں ۔قاتلوں کو اپنی گود میں بٹھانے والے آج محض اپنے اسلام دشمن خیالات کی پیروی کے لیے وادی سندھ کا عرب سے رشتہ توڑ رہے ہیں ۔ ویسے علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے اپنی کتاب عرب و ہند کے تعلقات میں لکھا ہے کہ عرب اور ہند کے تعلقات صدیوں پرانے ہیں ۔ سندھ کے بعض جنگجو قبائل کے لوگ ایرانی فوج میں تھے ۔ صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے جب ان کو دیکھا تو کہا کہ ان کا چہرہ جاٹوں (زط) کی طرح ہے ۔(ترمذی ابواب الامثال)وہ کہتے ہیں کہ مہا بھارت کے زمانے میں بھی ہندوستان کے لوگ عربی زبان سے واقف تھے ۔یعنی جاٹوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا ۔معروف سیاسی رہنما راجہ محمد ظفر الحق نے راقم الحروف کو بتایا کہ وہ جنجوعہ راجپوت ہیں ان کے آبائو اجداد نے آج سے تقریباً9 سو سال یا ایک ہزار سال پہلے اسلام قبول کرلیا تھا ۔ راجہ ظفر الحق کا آبائی گائوں کہوٹہ ہے جہاں ایک ہزار سال سے مسلمان آباد ہیں اور ان کا تہذیبی رشتہ عرب کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔جناب رضا ربانی صاحب ہم ایک زندہ تہذیب کے امین ہیں ہمیں مردہ تہذیبوں کی پو جا پر مجبور نہ کیجئے ۔