میرے لاہوریے تحریر محمد اظہر حفیظ

جن کی محبت میں لاھور لاھور تھا وہ تو اکثر پردہ فرما گئے۔
اب میرا دل لاھور میں کیسے لگے۔ انکو یاد کرتا ھوں اور اسلام آباد میں رھتا ھوں۔
لاھور میں داخلے سے پہلے سید پارک شاھدرہ جہاں میاں منظور الحق صاحب اور گھر والوں سے ملے بغیر لاھور میں داخل ھونے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ نیشنل کالج آف آرٹس لاھور میں داخلہ ٹیسٹ سے لیکر ڈگری لینے تک تمام مراحل میں انکی شفقت اور محبت سر راہ تھی۔
ھر ویک اینڈ ان کے ساتھ ھی گزرتا تھا آج تک یقین نہیں آیا کہ وہ پردہ کرگئے ھیں۔ انکی وفات کے بعد کئی دفعہ فون کرکے بات کرنے کیلئے بھائیوں سے درخواست کی کہ ان سے بات کروادیں اور جب وھاں جاتا تو آنکھیں انکو تلاش کرتی رھتیں تھیں۔ پھر اچھا کیا انکے بیٹوں نے اس گھر کو بیچ کر کیولری گراونڈ شفٹ ھوگئے اور میرا داخلی راستہ بھی جی ٹی روڈ سے بدل کر موٹروے ھوگیا۔ جس میں اب شاھدرہ آتا ھی نہیں بس شاھدرہ کا بورڈ ھی آتا ھے، اس سے آگے آتے تھے تو دیرینہ دوست آصف حسین زیدی کا گھر آتا تھا جو کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسرز کے چند گھر ، جو کہ گورنمنٹ کالج کے سامنے واقع تھے میں رھائش پذیر تھے۔ انکے والد پروفیسر شاھد زیدی صاحب شعبہ فلسفہ کے ھیڈ تھے ۔ ان سے زندگی کے فلسفہ کو سمجھنے کا بہت قریب سے موقع ملا۔ میرا لاھور میں دوسرا ٹھکانہ ھوتا تھا۔ شاھدرہ سے گزر کر مجھے کبھی داتا دربار کم ھی نظر آیا میری بائیک پروفیسر صاحب کے گھر ھی رکتی تھی۔ پروفیسر صاحب اپبے شاگردوں کیلئے ایک سخت مزاج انسان تھے اور میں ان چند خوش نصیبوں میں شامل تھا جن سے وہ اور اماں شفقت سے پیش آتے تھے ۔ جب گھر والے ساہیوال جاتے تو مجھے ان کے ساتھ ٹھہرنے کا مواقع بھی نصیب ھوئے اور پھر وہ وھاں سے فیصل ٹاون شفٹ ھوگئے اور اس طرح مجھے فیصل ٹاون بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اور وھیں پر وہ دونوں پردہ فرماگئے۔ انکی وجہ سے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کو بھی جاننے کا موقع ملا۔
گورنمنٹ کالج سے آگے چلتے تھے تو نیشنل کالج آف آرٹس لاھور آتا تھا۔
وھاں پر میاں صلاح الدین جو کہ ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ کے ھیڈ تھے ان سے بھی بہت شفقت ملی پھر وہ میری نالائقیوں پر کچھ عرصہ ناراض بھی رھے۔ کمال سادہ طبعیت انسان تھے سائیکل پر کالج آتے تھے اپنے انداز کے کرتے پہنتے تھے۔ سرامک ڈیزائن میں انکا ایک بڑا نام ھے۔ زندگی میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ دھیمے لہجے میں بات کرنا ، زیر لب مسکرانا اور ناراضگی پر خاموش ھوجانا ان سے ھی سیکھا۔ وہ بھی پردہ فرما گئے۔
اس سے اگلی منزل نیشنل کالج آف آرٹس ھاسٹل 4 – ساندہ روڈ لاھور اس کے وارڈن محمود الحسن جعفری صاحب جو کہ میرے گرافک ڈیزائن کے استاد بھی تھے شاید ھی اتنا بڑا ڈیزائنر اپنی زندگی میں دیکھا ھو۔ ان کے ڈیزائن انکی پینٹنگز سب اپنی مثال آپ تھے۔ ڈیزائن کی الف ب ان سے سیکھی وہ بھی اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔
نیشنل کالج آف آرٹس ھاسٹل سے نکلتے تھے تو سیدھے پرانی انارکلی آبیٹھتے تھے وھاں پر پروفیسر محمد آصف صاحب، پرویز مجید صاحب، ثاقب سائیں اور بہت سے لوگوں ساتھ ملاقاتیں شروع ھوئیں۔ ان میں زیادہ توجہ پرویز مجید صاحب اور پروفیسر محمد آصف صاحب کی طرف رھی۔ پروفیسر آصف ھمارے نیشنل کالج آف آرٹس کے استاد بھی تھے پینٹنگ میں تو زیادہ تر سٹل لائف بناتے تھے پر زندگی سے بڑے سائز کے سکلپچر پہلی دفعہ ان کو ھی بناتے دیکھا وہ اکثر فوج کیلئے بڑے سکیل کے سکلپچر بناتے تھے۔ جیسے تیس فٹ کا فوجی اس طرح زندگی سے بڑا دیکھنا ان سے ھی سیکھا۔ کچھ سال پہلے وہ بھی انتقال فرما گئے۔
مال روڈ سے تھوڑا آگے جاتے تھے تو ریگل چوک آجاتا تھا۔پر مجھے کبھی ریگل چوک نظر ھی نہیں آیا اس سے آگے 5 ۔ ٹیمپل روڈ میرا پسندیدہ ٹھکانہ تھا۔ جتنی کتابیں میں نے وھاں پڑھیں اور دیکھیں شاید ھی کہیں دیکھی ھوں۔ مجھے وھاں منٹو صاحب، فیض احمد فیض صاحب، نجم الحسن سید صاحب، استاد دامن صاحب، ساحر لدھیانوی صاحب، محسن نقوی صاحب، مشتاق یوسفی صاحب، شفیق الرحمن صاحب، اسد اللہ غالب صاحب اور بہت سے ادیبوں کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ وھاں میرے ھیرو میرے ابی اور اماں رھتے تھے۔ میں بلکل ایسے ھی وھاں جاتا تھا جیسے میرا اپنا گھر آئی اے رحمن انکل اور آنٹی میرے ماں باپ جیسے تھے۔ یقینا لکھنا میں نے وھیں سے سیکھا زندگی کا بہت سا وقت انکے زیر سایہ گزرا، اور وہ وھاں سے شفٹ ھوگئے پھر میں کبھی ٹیمپل روڈ نہ جا سکا، اب تو اماں اور ابی دونوں ھی اس جہاں سے پردہ فرما چکے ھیں۔
نوجوانوں میں مجھے بھائی اشفاق افضل سے بہت انسیت تھی وہ اگفا فلمز میں کام کرتے تھے اور پہلا ڈیجیٹل کیمرہ بھی انہیں کے توسط سے نوے کی دہائی میں میرے پاس آیا ۔ پھر انکا ساتھ بھی کچے دھاگے کی طرح ثابت ھوا اور وہ بھی اللہ پاس چلے گئے۔ میاں مجید میرے پہلے فوٹوگرافی کے استاد ھیں اگر فوٹوگرافی میں کچھ بھی کر پایا وہ سب انکا سکھایا ھوا ھے۔ وہ بھی ماڈل ٹاون سے اگلے جہاں چلے گئے۔ ناصر سعید صاحب نائیکون کو پاکستان میں انکی وجہ سے پہچان ملی ۔ اور میرے دیرینہ دوست تھے تیس سالہ رفاقت اور دوستی کے بعد وہ بھی یکدم چھوڑ کر چلے گئے ان کے بعد میرا بھی نائیکون کے ساتھ دل نہ لگا۔ مجھے اکثر دوست کہتے ھیں لاھور کب آئیں گے تو میں انکو کیا بتاوں میں نے تو لاھور کو جن کی وجہ سے لاھور سمجھا وہ اب لاھور میں نہیں ھیں۔ میں دعاگو ھوں اللہ تعالٰی ان سب کی وجہ سے میری زندگی میں بہت سی آسانیاں آئیں ان کیلئے اگلے جہاں میں آسانیاں کردے آمین۔ اللہ تعالٰی ان سب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین ۔ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔
میرے لاھور میں آباد تمام دوست سلامت رھیں خوش رھیں آمین ۔ لاھور سے میرے سارے بابے چلے گئے پر دوست بہت سارے ھیں۔ میں لاھور آتا ھوں پر دل نہیں لگتا۔ دوستوں سے دعا کی درخواست ھے جو چلے گئے ھیں انکی بخشش کی اور جو حیات ھیں انکی درازی عمر کی۔ صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی کی ۔ آمین