پطرس بخاری وفات 5 دسمبر

سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری ( Patras Bokhari؛ پیدائش: یکم اکتوبر 1898ء – وفات: 5 دسمبر 1958ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، شاعر، نقاد، معلم، برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار تھے۔ پطرس کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان میں نشریات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پطرس اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پطرس انگریزی کے پروفیسر تھے اور انگریزی میں اتنی قابلیت تھی کہ انہوں نے امریکا کی جامعات میں انگریزی پڑھائی اور وہیں وفات پائی اور دفن ہوئے۔
پطرس بخاری یکم اکتوبر 1898ء میں پشاور، برطانوی ہندوستان (حالیہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید اسد اللہ شاہ بخاری پشاور کے ایک معروف وکیل خواجہ کمال الدین کے منشی تھے۔

اس زمانے کے رواج اور خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پطرس بخاری کو گھر پر ناظرہ قرآن پاک پڑھایا گیا۔ فارسی کی تعلیم ضروری خیال کی جاتی تھی اسی لیے “صفوۃ المصادر” کے ذریعے فارسی زبان کے قواعد کی باقاعدہ تعلیم دی گئی۔ دینی اور ثقافتی بنیاد فراہم کرنے کے بعد والد نے آنے والے دور کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے دوستوں اور خیر خواہوں کے اعتراضات کی پروا نہ کرتے ہوئے نو سالہ پیر احمد شاہ (پطرس بخاری) کو انگریزی تعلیم کے لیے مشن اسکول پشاور میں داخل کرادیا۔ مشن اسکول میں داخل ہوتے ہی انہوں نے انگریزی نظمیں زبانی یاد کرنا شروع کر دیں۔ اس زمانے میں انگریزی کے استاد انگریز ہوتے تھے جو بچوں کے تلفظ کا خاص خیال رکھتے تھے۔ احمد شاہ کی آواز، انگریزی لہجے اور خوبصورت تلفظ کے سبب ان کی انگریزی نظم خوانی پر اساتذہ خصوصی توجہ دیتے تھے۔ اس طرح انگریزی ادب سے مانوسیت نے دلی لگاؤ کی کیفیت پیدا کردی۔۔[3] مشن ہائی اسکول میں تعلیم کے اعلیٰ معیار سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور 1913ء میں پندرہ برس کی عمر میٹرک میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ والد صاحب نے انہیں 1914ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ دلوا دیا جہاں وہ ابتدا میں شرمیلے، کم گو اور ہوشیار طالبِ علم کی حیثیت سے اُبھرے ۔ جہاں انہوں نے 1916ء سے 1922ء تک تعلیم حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم

پطرس بخاری 26-1925ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ انہوں نے انگریزی ادب میں اعلیٰ ترین سند کے لیے کیمبرج یونیورسٹی کا انتخاب کیا اور کیمبرج یونیورسٹی کے عمانویل کالج میں انگریزی ادب میں TRIPOS کی سند اول درجے میں حاصل کی اور عمانویل کالج کے سینئر اسکالر منتخب ہوئے۔ وہ جنوبی ایشیا کے دوسرے طالبِ علم تھے جس نے انگریزی ادب میں اول درجے میں سند حاصل کی۔
ملازمت
گورنمنٹ کالج لاہور

بخاری صاحب نے ملازمت کا آغاز 1922ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے لیکچرار کی حیثیت سے کیا اور 1935ء تک منسلک رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے تھے، واپسی پر انہیں ٹریننگ کالج میں انگریزی کا استاد مقرر کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد آپ کا تقرر گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور لکچرارہو گیا۔ انتظامیہ نے بخاری صاحب کی صلاحیتوں سے پورا پوارا انصاف کیا۔ انہیں پراکٹر (نگران طلبہ) مقرر کیا جس کا کام طلبہ میں نظم و ضبط برقرار رکھنا تھا۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو بڑی چابک دستی اور احتیاط سے نبھایا۔ وہ طلبہ کو سزا نہیں دیتے تھے۔ سرزنش کا ان کا اپنا انداز تھا۔

آپ کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس وقت کے گورنر نے آپ کو گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبۂ انگریزی کی صدارت پر فائز کیا۔ یاد رہے پطرس بخاری پہلے مسلمان صدر شعبۂ انگریزی تھے۔ Prof. E. Dickenson کی سبکدوشی کے بعد 1 مارچ 1947ء کوپطرس نے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا جہاں 1950ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔[6] یہاں آپ کے شاگردوں میں فیض احمد فیض، ن م راشد، کنہیا لال کپور، اقبال سنگھ، الطاف قادر، حفیظ ہوشیار پوری، حنیف رامے اور پروفیسراشفاق علی خان بطور خاص شامل ہیں۔
آل انڈیا ریڈیو

1936ء میں جنوبی ایشیا میں ریڈیو کے باقاعدہ قیام نے بخاری صاحب کی انتظامی اور فن کارانہ صلاحیتوں کو جِلا بخشی اور انہوں نے تعلیم کے شعبے کو خیرباد کہہ کر ایک ایسے میدان میں خدمت کو ترجیح دی جس کے امکانات لامحدود تھے۔ ریڈیو میں لائق اور با صلاحیت عملے کے انتخاب کے لیے مرکزی حکومت نے جو بورڈ تشکیل دیا تھا اس میں صوبہ پنجاب کے نمائندے کی حیثیت سے بخاری صاحب کو نامزد کیا گیا تھا۔ بورڈ کے اجلاس میں بخاری صاحب نے اپنی لیاقت، انگریزی میں صلاحیت، اردو ادب اور فنونِ لطیفہ میں مہارت سے ریڈیو کے کنٹرولرنیونل فیلڈن کو بہت متاثر کیا۔ اسی بورڈ میں بخاری صاحب کے چھوٹے بھائی ذوالفقارعلی بخاری کا بھی انتخاب ہوا۔ نیونل فیلڈن نے دو ایک ماہ کے بعد ہی محسوس کیا کہ ریڈیو کے بڑھتے ہوئے کام سے تنہا عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں۔ اسی لیے نیونل فیلڈن نے وائسرائے لارڈ لنلتھگو سے جو رشتے میں اس کے ماموں تھے براہِ راست بخاری صاحب کی تقرری کے احکامات حاصل کروا لیے اور حکومت پنجاب سے انہیں فوری طور پر ریڈیو میں شمولیت کی اجازت طلب کی۔ پطرس بخاری ڈپٹی کنٹرولر کے عہدے کا چارج لینے آئے تو معلوم ہوا کہ ابھی یہ اسامی حکومت نے منظور نہیں کی ہے۔ لہذا انہیں دو ماہ کے لیے دلی کا اسٹیشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے جون 1936ء میں ڈپٹی ڈائریکٹر کا چارج سنبھالا۔ 1939ءمیں پطرس کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ ابھی ریڈیو کے کام کا آغاز ہی ہوا تھا کہ بخاری کا نیونل فیلڈن سے اختلاف شروع ہو گیا۔ اس کا آغاز اختلافِ رائے سے ہوا اور پھر ذاتی نوعیت اختیار کر گیا۔ اسی دوران جنگ عظیم دوم شروع ہونے سے قبل ہی نیونل فیلڈن بیمار ہو کرانگلستان چلا گیا اور بخاری اس کی جگہ قائم مقام کنٹرولر مقرر کردیے گئے اور 1940ء میں مستقل کنٹرولر مقرر کیے گئے۔ یہ عہدہ فروری 1943ء کو ڈائریکٹر جنرل میں تبدیل کر دیا گیا۔ بخاری صاحب نے سب سے پہلے انڈین براڈکاسٹنگ سروس کا نام آل انڈیا ریڈیو منظور کروایا جس کی انگریزی تخفیف شدہ شکل AIR ہے۔ انہوں نے ریڈیو کا شناختی نغمہ بھی منتخب کیا جو آج بھی پورے ہندوستان میں گونج رہا ہے۔ اس کے بعد بخاری کا ریڈیائی زبان کے مسئلے سے سابقہ پڑا۔ نیونل فیلڈن نے تو صرف حکومت کا یہ حکم سنا دیا کہ قومی پروگراموں کی زبان “ہندوستانی” ہو گی۔ اس طرح 1 جنوری 1936ء کو انڈین براڈکاسٹنگ سروس دلی اسٹیشن کا افتتاح ہوا تو گویا زبان کے سلسلے میں بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا گیا۔ سیاسی حلقوں میں الزام تراشیوں کا بازار گرم ہو گیا۔ ریڈیو کی زبان پر اخبارات میں، مرکزی اسمبلی میں اور سیاسی جلسوں میں اعتراضات کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ پطرس بخاری نے حواس مجتمع رکھے، حوصلہ نہیں ہارا اور سب سے پہلے زبان کے مسئلے کے سیاق و سباق سے آگاہی کے لیے چھ تقاریر کا ایک سلسلہ نشر کیا۔ مقررین میں بابائے اردو مولوی عبدالحق، راجندر پرشاد (بعد میں ہندوستان کے پہلے صدر ہوئے)، ڈاکٹر تارا چند (الہ آباد یونیورسٹی)، ڈاکٹر ذاکر حسین (بعد میں ہندوستان کے صدر ہوئے)، پنڈت برج موہن دتا تریا کیفی (اردو ادیب اور دانشور) اور ڈاکٹر آصف علی (سیاسی قائد) جیسی بلند مرتبت، لائق اور صاحبِ رائے شخصیات شامل تھیں۔ اس سلسلۂ تقاریر میں بخاری نے یہ جدت بھی کی کہ انگریزی کی ایک عبارت، اس کا وہ ترجمہ جو ریڈیو سے نشر ہوا اور خالص ہندی ترجمہ بھی مقررین کو بھیجا کہ وہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں۔ ان کی رائے ریڈیائی زبان کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ان تقاریر کی نشر و اشاعت کے بعد بخاری صاحب کو برطانوی راج کے ساتھ ساتھ کانگریس کی بھی سرپرستی حاصل ہو گئی جو اس زمانے میں بیشتر صوبوں میں حکمران تھی۔ موزوں الفاظ کے فوری طور پر استعمال کے لیے ایک ایسی فرہنگ کی ضرورت تھی جس کے الفاظ نہ اردو کے ہوں نہ ہندی کے بلکہ ہندوستانی (عوام فہم) ہوں۔ اسے مرتب کرنے کے لیے چراغ حسن حسرت اور ایچ دت “سیانا” کو بطور ماہر مقرر کیا۔ اس فرہنگ پر نظرثانی کے لیے ڈاکٹر دوونشنی اور ڈاکٹر رفیق الدین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ یہ فرہنگ چار سال میں مکمل ہوئی اور 1944ء میں لطیفی پریس نئی دلی سے شائع ہوئی۔

جنگِ عظیم دوم شروع ہوتے ہی ستمبر 1939ء میں دلی کو محکمۂ خبر کا مرکز بنا دیا گیا۔ حکومت نے آل انڈیا ریڈیو کے صدر دفتر کو اپنی عمارت میں، پارلیمنٹ اسٹریٹ پر منتقل کیا اور 1943ء میں ریڈیو ایک مستقل محکمہ بنا دیا گیا۔ جنگ کے شرو ع ہوتے ہی دشمن کی نشریات سننے پر پابندی لگا دی گئی لیکن سرکاری محکموں کی اطلاع اور دشمن پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے شملہ میں ایک مانیٹرنگ اسٹیشن قائم کیا گیا جس کی رپورٹ روزانہ متعلقہ محکموں کو خفیہ خطوط کے ذریعے فراہم کی جاتی تھی۔ جنگ کے دوران بخاری صاحب کی خدمات کو حکومت کی سطح پر سراہا گیا اور انہیں( Companion of the Indian Empire (CIE کا خطاب دیا گیا۔ جنوبی ایشیا میں نشریات کی بنیاد رکھنے اور اسے فروغ دینے میں بخاری صاحب کی خدمات کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔

حکومت پاکستان نشریات کے محاذ پر پطرس بخاری کے تجربے سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اسی لیے انہیں 14 اکتوبر 1947ء سے کل وقتی مشیر مقرر کرکے ریڈیو فریکوئنسی کی تقسیم کی پہلی کانفرنس میں ریڈیو کے وفد کا سربراہ بنا کر بھیجا گیا۔ یہ کانفرنس میکسیکو سٹی میں اپریل 1949ء تک جاری رہی۔ اس کانفرنس میں اے عزیزانجینئر سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے والد بھی شریک تھے۔ افتتاحی اجلاس میں پطرس بخاری نے اپنی فی البدیہہ تقریر سے دھاک بٹھا دی۔ میکسیکو میں قیام کے دوران بخاری صاحب نے ہسپانوی زبان سیکھی اور چار ماہ بعد ہی ہسپانوی بلاتکلف بولنے لگے، اخبارات پڑھنے لگے اور وہاں کی تہذیب وثقافت کا مطالعہ کیا۔ میکسیکو کے تاثر کے بارے میں سالک صاحب کو اپنے خط میں ذکر کرتے ہیں کہ:
” میکسیکو مجھے بے حد پسند آیا۔ پہاڑی ملک ہے۔ آب و ہوا بھی خوشگوار ہے، لوگ رنگین طبع، با اخلاق، رنگین مزاج ہیں— موسیقی، ناچ اور سواری کے بے حد شوقین ہیں، گفتگو میں آپ، جناب، حضور وغیرہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں— پچاس سال سے یہاں ایک نئی نیشنلزم بروئے کار آرہی ہے جو اپنے آپ کو صرف میکسیکو سے وابستہ کرتی ہے۔ “

چھ ماہ بعد کانفرنس ختم ہوا اس دوران پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امریکا اور کینیڈا کا دورہ کیا۔ تقاریر لکھنے کے لیے بخاری صاحب کو بھی ساتھ لے لیا۔ یہ تقاریر”Pakistan Heart of Asia” کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔
اقوامِ متحدہ
بخاری صاحب کو 1 اگست 1949ء کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت کشمیر کا تنازع لے کر اقوام متحدہ میں گیا تھا۔ فلسطین کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں گرما گرم بحثوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ تیونس کی آزادی کا معاملہ اقوامِ عالم کے لیے اہمیت اختیار کرچکا تھا۔
پطرس بخاری افتادِ طبع کے ہاتھوں مجبور ہوکراس ماحول سے کنارہ کرنے لگے اور سفارت کاری میں اپنی خداداد ذہانت سے پورا پورا فاعدہ اٹھانے کے لیے سخت محنت کرتے۔ انہیں اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں اور چھوٹی بڑی کمیٹیوں میں مختلف موضوعات پر تقریر یں کرنی پڑتی تھیں۔ ان کی تقریر کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے کینیڈا کے اخبار نے لکھا کہ ان کی تقریر تمام سیاست دانوں کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتی ہے کہ تقریر میں کس قسم کی زبان استعمال کرنی چاہیے، انگریزی زبان سیکھنی ہے تو بخاری سے سیکھیے۔ ان کی سب سے اہم تقریر 4 اپریل 1952ء کو سلامتی کونسل میں تیونس کی آزادی کے مسئلے پرفرانس کے خلاف گیارہ نکاتی شکایت پر تھی جس نے انہیں عرب اور ایشیائی ممالک کے قابلِ اعتماد ترجمان کی حیثیت عطا کردی۔ بخاری کی اس خدمت کو تیونس نے بھی تسلیم کیا اور اظہارِ عقیدت کے لیے وہاں پتھر کا ایک چھوٹا سا مینار بخاری کی یادگار کے طور پر تعمیر ہوا۔ نومبر 1953ء میں اقوامِ متحدہ کی ایڈہاک کمیٹی نمبر 3 کے اجلاس میں نسلی امتیاز کی پالیسی کو اخلاقی لحاظ سے قابلِ مذمت قرار دیا۔ 19 دسمبر 1953ء کو فلسطین کے پیچیدہ مگر اہم مسئلے پر بحث کرتے ہوئے تین بڑوں کے رویئے پر طنز کے تیر برسائے۔ اسی طرح دریائے اردن کے تنازع پر ایک مدلل و مؤثر تقریر کی۔ 28 فروری 1954ء کو ایک اجلاس میں پاکستان کے لیے فوجی امداد کے موضوع پر پُرمغز باتیں کیں اور اسے جنگ کے بعد بین الاقوامی تعاون کی اہم مثال قرار دیا۔
پطرس بخاری نیویارک ٹائمز یوتھ فورم میں

پطرس نے 17 اپریل 1954ء کو نیو یارک ٹائمز کے یوتھ فورم سے جارحانہ جنگوں کے خاتمے کی ضرورت کے موضوع پر خطاب کیا۔ ان تقریروں نے ان کی علمیت، انگریزی زبان و ادب پر دسترس اور حسِ مزاح کی دھاک بٹھا دی۔ نیو یارک ٹائمز، کرسچین سائنس مانیٹر، نیویارک ڈیلی، شکاگو ٹریبون نے بخاری کو اقوام متحدہ کے بہترین مقرروں میں شمار کیا۔ اقوام متحدہ میں تعینات نامہ نگاروں نے انہیں سب سے زیادہ خوش بیان اور فصیح و بلیغ مقرر قرار دیا۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اقوامِ متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل داگ ہیمرشولڈ نے پطرس بخاری کو اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل انچارج تعلقات عامہ کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا۔ جس پر بھارت نے سخت احتجاج کیا لیکن اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل داگ ہیمرشولڈ نے تمام اعتراضات کو رد کرتے ہوئے ان کی تقرری کی منظوری دی۔ پطرس بخاری کی تقرری بخاری صاحب کے ساتھ پاکستان کے لیے ایک اعزاز تھا جو پھر کسی پاکستانی کو حاصل نہیں ہو سکا۔
پطرس بخاری نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ سے کیا۔ وہ عموماً تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے Peter Watkins کا قلمی نام اختیار کیا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے مشن اسکول پشاور کے ہیڈ ماسٹر سے قلبی تعلق کا اظہار تھا۔ جس کے لفظ پیٹر کے فرانسیسی تلفظ نے پیر احمد شاہ کو پطرس بنا دیا۔ اس وقت سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر M.E. Hardy تھے جو بخاری کو ایک کالم کا سولہ روپیہ معاوضہ ادا کرتے تھے جس کی قدر اس زمانے میں تین تولہ سونے سے زائد تھی۔
پطرس قلمی نام

پطرس بخاری نے پطرس کا قلمی نام سب سے پہلے رسالہ کہکشاں کے ایک سلسلۂ مضامین یونانی حکماء اور ان کے خیالات کے لیے استعمال کیا۔ بخاری کی تحریریں پطرس کے نام سے اپنے زمانے کے مؤقر رسائل و جرائد میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کی بیشتر تحریریں کارواں، کہکشاں، مخزن، راوی اور نیرنگ خیال میں اشاعت پزیر ہوئیں۔
اردو ادیب

1945ء میں جے پور میں PEN (اہلِ قلم کی بین الاقوامی انجمن) کا سالانہ اجلاس ہوا جس میں بخاری صاحب نے جو اس وقت آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹرجنرل تھے ایک نہایت فکر انگیز مقالہ بعنوان “ہمارے زمانے کا اردو ادب” پیش کیا۔ اس اجلاس میں معروف انگریزی ادیب E.M. Foster، سروجنی نائیڈو، جواہر لعل نہرو، سروپلی رادھا کرشنن، صوفیا واڈیا، ملک راج آنند اور کتنے ہی مشاہیرِ علم و ادب شریک تھے۔ رشید احمد صدیقی کا بیان ہے کہ
” مقالہ پڑھا تو دھوم مچ گئی۔ اردو اور ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ادیبوں کے ایک بنیادی مسئلے کو پہلی بار نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا تھا— انہوں نے کہا کہ ہندوستانی ادیب مادری زبان اور انگریزی زبان کے درمیان معلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ ذولسانی کشمکش ان کے فکر و نظر کو فطری رنگ میں جلوہ گر ہونے نہیں دیتی۔