عابد علی عابدؔ یومِ ولادت 17؍ستمبر

17؍ستمبر 1906

*ممتازترین پاکستانی نقادوں میں شامل اور معروف شاعر” عابد علی عابدؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…*

اردو میں جن لوگوں نے ایک وسیع تر ادبی ، سماجی اور تہذیبی آگہی کےساتھ تنقید لکھی ہے ان میں ایک نام عابد علی عابد کا بھی ہے۔ عابد علی عابد اردو کے ساتھ فارسی اور انگریزی زبان وادبیات کے واقف کاروں میں بھی تھے اسی وجہ سے ان کا تنقیدی ڈسکورس ان کے عہد میں لکھی جانے والی روایتی تنقید سے بہت مختلف نظر آتا ہے۔
عابد علی عابد نے شاعری بھی کی ۔ ان کے کئی شعری مجموعے بھی شائع ہوئے لیکن ان کی تنقید ان کی تخلیقی کارگزاریوں پر حاوی رہی۔ *عابد علی عابدؔ، 17؍ستمبر 1906ء* کو *ڈیرہ اسماعیل خان* میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد فوج میں ملازم تھے ۔ لاہور سے ایل ایل بی تعلیم حاصل کی اور گجراب میں وکالت کرنے لگے لیکن ان کا علمی اور ادبی ذوق انہیں لاہور کھینچ لایا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ *20؍جنوری 1971ء* کو *لاہور* میں انتقال ہوا۔ *عابد علی عابدؔ* کی تصانیف کے نام یہ ہیں :
*اصول انتقاد ، ادب کے اسلوب ، شمع ، ید بیضا ، سہاگ ، تلمیحات اقبال ، طلسمات ، میں کبھ غزل نہ کہتا ، بریشم عود ، انتقاد* وغیرہ۔

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

🌹🎊 *معروف شاعر عابد علی عابدؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…*🎊🌹

*دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ*
*آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل*

آیا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل
یا اگر مات ہو تو ہاتھ نہ مل

انہیں کو عرض وفا کا تھا اشتیاق بہت
انہیں کو عرض وفا نا گوار گزری ہے

میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی
ان کے مرنے کا نام تاج محل

کہتے تھے تجھی کو جان اپنی
اور تیرے بغیر بھی جئے ہیں

جلوۂ یار سے کیا شکوۂ بے جا کیجے
شوق دیدار کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا

وہ مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے تھے
یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا

میرے جینے کا یہ اسلوب پتہ دیتا ہے
کہ ابھی عشق میں کچھ کام ہیں کرنے والے

آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں
آج دل کے نگر سے گزرے ہیں

کچھ احترام بھی کر غم کی وضع داری کا
گراں ہے عرض تمنا تو بار بار نہ کر

اے التفات یار مجھے سوچنے تو دے
مرنے کا ہے مقام یا جینے کا محل

اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا
تب سے سندر سندر سپنے من کو گھیرے پھرتے ہیں

کوئی برسا نہ سر کشت وفا
کتنے بادل گہر افشاں گزرے

واعظو میں بھی تمہاری ہی طرح مسجد میں
بیچ دوں دولت ایماں تو مزا آ جائے

ساقیا ہے تری محفل میں خداؤں کا ہجوم
محفل افروز ہو انساں تو مزا آ جائے

در اخلاص کی دہلیز پر خم ہوں عابدؔ
ایک جینے کا سلیقہ دل بیباک میں ہے

تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے

یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے
وہ زندگی جو سر رہ گزار گزری ہے

سبو اٹھا کہ یہ نازک مقام ہے ساقی
نہ اہرمن ہے نہ یزداں ہے دیکھیے کیا ہو

مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے
پاؤں بجتے ہیں تیرے بن چھاگل

شب ہجراں کی درازی سے پریشان نہ تھا
یہ تیری زلف رسا ہے مجھے معلوم نہ تھا

کبھی میں جرأت اظہار مدعا تو کروں
کوئی جواز تو ہو لطف بے سبب کے لئے

یہی دل جس کو شکایت ہے گراں جانی کی
یہی دل کار گہ شیشہ گراں ہوتا ہے

عشق کی طرز تکلم وہی چپ ہے کہ جو تھی
لب خوش گوئے ہوس محو بیاں ہے کہ جو تھا

یہ حادثہ بھی ہوا ہے کہ عشق یار کی یاد
دیار قلب سے بیگانہ وار گزری ہے

غم کے تاریک افق پر عابدؔ
کچھ ستارے سر مژگاں گزرے

شرع و آئین کی تعزیر کے با وصف شباب
لب و رخسار کی جانب نگراں ہے کہ جو تھا

غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا
وصف خوباں بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🔸 *عابد علی عابدؔ*🔸

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*

اپنا تبصرہ بھیجیں